’’اور جہاں تک ممکن ہوسکے، کافروں کے مقابلہ کے لئے قوت اور جنگی گھوڑے تیار رکھو۔‘‘ اور بہت سے علما نے کہا ہے کہ صنعت و حرفت سے متعلقہ علوم کو جاننا فرضِ کفایہ٭ ہے۔ اور یہ اس لئے کہ کھانے، پینے کے برتن اور دیگر ضرورت کا سامان لوگوں کی ان بنیادی اشیا سے تعلق رکھتا ہے جن پر ان کی زندگی کا انحصار ہے۔ اگر کوئی شخص بھی ان چیزوں کی تیاری کے لئے کارخانہ وغیرہ نہ لگائے، تو ایسی صورت میں ان کا سیکھنا ’فرض عین‘ بھی ہوجاتا ہے،اگرچہ یہ مسئلہ اہل علم کے ما بین مختلف فیہ ہے۔ بہرصورت ہم یہی کہیں گے کہ قابل ستائش اور افضل ترین’شرعی علم‘ ہی ہے جو اللہ کی کتاب (قرآن) اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو سیکھنا ہے اور اس کے علاوہ دیگر علوم وہ یا تو خیروبرکت اور بھلائی کے کاموں کا ذریعہ ہیں اور یاپھر شروفساد کو جنم دینے کا ’وسیلہ‘ ۔ سو اُن کا حکم اُن اُمور کے مطابق ہوگا جنہیں اُٹھانے اور ظاہر کرنے کا یہ ذریعہ بنے ہیں ۔ علم کے فضائل اللہ جل شانہ نے علم اور اہل علم دونوں کی تعریف فرمائی ہے اور اپنے بندوں کو علم حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے۔ بعینہٖ سنت ِطاہرہ میں بھی طلب ِعلم کی جابجا تلقین کی گئی ہے۔ لہٰذا علم کا حصول، نیک اعمال میں سے افضل ترین عمل اور نفلی عبادات میں افضل ترین عبادت ہے، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کی اقسام میں سے ایک قسم ہے اور اس لئے بھی کہ اللہ عزوجل کے دین کو قائم اور نافذ کرنے کے لئے دو چیزیں ضروری ہیں : 1. علم اور دلیل 2. لڑائی اور اسلحہ اقامت ِدین کے لئے یہ دونوں چیزیں از بس ضروری ہیں ۔ ان دونوں کے سوا دین کاغلبہ ناممکن ہے، اوران دونوں میں سے پہلی چیز دوسری پر مقدم ہے اوریہی وجہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی قوم پر ان کواللہ عزوجل کے دین کی طرف دعوت دیے بغیرشب خون نہیں مارا۔ گویا اس اعتبار سے علم قتال (اللہ کی خاطر لڑائی لڑنے) پر سبقت لے گیاہے۔ اللہ تعالیٰ ________________ ٭ جو شرعی حکم ایک یا چند اشخاص کے بجا لانے سے معاشرے کے دیگر افراد سے ساقط ہو جائے،فرض کفایہ کہلاتا ہے، جیسے نماز جنازہ میں شرکت وغیرہ |