Maktaba Wahhabi

46 - 80
شریعت ِطاہرہ کے علم کا ہی وارث بنایا ہے نہ کہ کسی اور کا۔ ایسے ہی ان انبیاء علیہم السلام نے لوگوں کو صنعت اور اس سے متعلقہ دیگر فنون کے علم کا ہرگز وارث نہیں ٹھہرایا، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے موقع پر جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ نزولِ اجلال فرمایا، تو وہاں کے لوگوں کو کھجوروں کی تأبیر(پیوندکاری) کرتے ہوئے پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ سے، اُن کو مشقت میں دیکھتے ہوئے، اس بارے میں بات کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کا ماحصل یہ تھا کہ ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ تو اُن لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر ایسا ہی کیا اور تلقیح٭ کرنے سے رُک گئے، مگر کھجوروں پر پھل کم آیا۔ اس پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أنتم أعلم بأمر دنیاکم)) [1] ’’ تم اپنی دنیا کے معاملات کو بہتر جانتے ہو۔‘‘ لہٰذا اگر دنیوی معاملات کے بارے میں جاننا، تعریف و توصیف کے لائق ہوتا تو اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان معاملات کو تمام لوگوں سے بڑھ کر جاننے والے ہوتے۔ اس لئے کہ اس دنیا میں علم و عمل کی بابت سب سے زیادہ قابل تعریف اور ثنا کے لائق ہستی اللہ کے نبی حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں ۔ دیگر علوم کی اِفادیت تو واضح ہوا کہ شرعی اور دینی علم ہی قابل تعریف ہے اور اسے حاصل کرنے والایقیناستائش و ثنا کا مستحق ہے۔ مگر اس کے باوجود ہمیں دیگر علوم و فنون کے فوائد سے قطعی انکار نہیں اور وہ ذات کی حد تک اس اعتبارسے منفعت بخش ہوں گے کہ ایک تو وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری اور اس کے دین کی نصرت پرمددگار و معاون ثابت ہوں اور دوسرے یہ کہ اللہ کے بندے اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوں ، اسی لحاظ سے یہ علوم بھلائی، خیرخواہی اور مصلحت کا سرچشمہ ہوں گے۔ حتیٰ کہ بعض حالات میں ان علوم میں مہارت اور آگاہی حاصل کرنا تو واجب ہوجاتا ہے بالخصوص جب وہ اللہ جل شانہ کے اس فرمان کے تحت داخل ہوں : ﴿وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ﴾ (الانفال:۶۰)
Flag Counter