Maktaba Wahhabi

74 - 79
عروج پر دیکھا کرتی ہے … ایک کونے میں یہ معصوم، سادہ، حجاب میں ملبوس، پاکیزہ روحیں … تلاوتِ قرآن پاک میں مگن رہتیں ۔ کون تھیں ؟ …کہاں چلی گئیں ؟ میں جب اُن سے ملا تو ان کے لہجے میں عجب اُکتاہٹ اور محرومیت کا احساس ہوا۔ آنکھوں میں اُداسی، معاشرے سے شکایت اور بیزاری، سونے کے کنگنوں سے محروم کلائیوں اور نیل پالش سے محروم ہاتھوں میں ڈنڈے اُس بے کسی کا اظہار تھے … جو غریب سادہ لوح گھرانوں کی اس شریف اور باکردار بچیوں کی آنکھوں سے بھی کراہ رہی تھی۔ ان کے طرزِ عمل سے ذرا سا اختلاف کرنے کی گستاخی ہوئی تو سب اُلجھ پڑیں ۔ شاہد بھائی! آپ کو کیا پتہ؟ ڈاکٹر صاحب! آپ نہیں جانتے۔ کسی آیت کا حوالہ… کسی حدیث کی دلیل… سب ایک ساتھ پل پڑیں ۔ آپ کو پتہ ہے امریکہ میں کیاہورہا ہے؟ یہ یہودیوں کی سازش ہے۔ ہمارے دشمنوں کی چال ہے… صلیبی جنگ ہے وغیرہ وغیرہ۔ میں بڑی مشکل سے اُنہیں اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بعد … چپ کروانے میں کامیاب ہو سکا۔ اُن کی نگران اُمّ حسان نے اسی دوران بتایا کہ ’’یہ طالبات ایک عرصے سے یہاں آئے مرد مہمانوں سے گفتگو نہیں کرتیں لیکن آپ سے ملنے کے لئے ان کی ضد تھی۔ میں نے خاموشی مناسب تصور کرتے ہوئے اُن کی گفتگو سننے میں عافیت تصور کی۔ یہ میرے لئے ایک مختلف دنیا تھی۔ شاید یہ فیشن زدہ، جدیدیت کی دلدل میں ڈوبی ٹی شرٹ جینز میں ملبوس خوش شکل لڑکیوں کو … ہرروز اپنے چھوٹے کمروں کے روشن دانوں سے جھانک کر … باہر سڑکوں پر ڈرائیونگ کرتا دیکھتی ہوں ۔ ممکن ہے … قریبی بازار تک آتے جاتے ان کے کانوں تک بھی دلفریب نغموں کی تھاپ پہنچتی ہوگی۔ کچی عمروں میں یقینا ان کی آنکھیں بھی خواب دیکھتی ہوں گی۔ ان کا دل بھی کبھی اچھے رشتوں کی آس میں دھڑکتا ہوگا۔ ان کا بھی عید پر نئے کپڑے سلوانے، ہاتھوں میں حنا سجانے اور چوڑیاں پہننے کو جی للچاتا ہوگا۔ لیکن آرزوئیں ، خواہشات اور تمنائیں ناکام ہوکر منوں مٹی کے نیچے اس طرح جاچھپیں کہ پھر نہ چہرے رہے … نہ شناخت۔ صرف آوازیں تھیں جو اَب تک میرے کانوں میں گونجتی ہیں ۔ انہی میں ایک چھوٹی بچی … یہی کوئی آٹھ دس برس کی… حجاب میں اس طرح ملبوس کہ چہرہ کھلا تھا … گفتگو سے مکمل ناواقفیت کے باوجود مسلسل ہنسے جاتی تھی کہ شاید یہی مباحثہ… اس کی تفریح کا سبب بن گیا تھا۔ بیٹی آپ کا نام کیا ہے…؟ میرے سوال پر پٹ سے بولی ’’اسمائ… انکل‘‘ پیچھے کھڑی اس کی بڑی بہن نے سر پر چپت لگائی۔ انکل نہیں … بھائی بولو! ’’خدا جانے اس میں ہنسنے کی کیابات تھی کہ چھوٹے قد کے فرشتے نے اس پر بھی قہقہہ لگا کر دہرایا ’جی بھائی جان!‘ آپ کیا کرتی ہیں ؟ میں نے ننھی اسماء سے پوچھا۔ ’’پڑھتی ہوں ؟‘‘ کیا پڑھتی ہو بیٹا؟ جواب عقب میں کھڑی بہن نے دیا: ’’حفظ کررہی ہے بھائی‘‘ اور بھی کچھ پڑھ رہی ہیں ؟ میں نے پوچھا۔ ’’جی ہاں ! کہتی ہے بڑی ہوکر ڈاکٹر بنے گی۔ بہن نے جو کہ یہی کچھ پندرہ سولہ برس کی مکمل حجاب میں ملبوس تھی، جواب دیا‘‘ آپ دو بہنیں ہیں ؟ میں نے سوال کیا۔ ’’جی ہاں بھائی! ‘‘ بڑی بہن نے اسماء کو آغوش میں لیتے ہوئے کہا۔ تین بھائی گاؤں میں ہیں … ہم بٹہ گرام سے ہیں نا۔ کھیتی باڑی ہے ہماری۔ میں جامعہ حفصہ اور لال مسجد میں ایک پروگرام کی ریکارڈنگ کے سلسلے میں موجود تھا… طالبات اور عبدالرشیدغازی صاحب سے گفتگو کے بعد میں نے بچیوں کوخدا حافظ کہہ کر غازی صاحب کے ساتھ
Flag Counter