Maktaba Wahhabi

73 - 79
میرے اصرار پر انہوں نے چودھری صاحب سے دوبارہ رابطہ کیا اور یوں پھر سے مذاکرات شروع ہوگئے۔ ان مذاکرات میں عبدالرشید غازی نے بار بار کہا کہ میر ے بڑے بھائی عبدالعزیز کو دھوکے سے باہر بلا کر گرفتار کرلیاگیا اور مجھے باہر بلاکر مار دیا جائے گا، لہٰذا بہتر ہے کہ میں ذلت کی موت کی بجائے لڑتے ہوئے مارا جاؤں ۔ آخر کار وہی ہوا اور عبدالرشید غازی نے ہتھیار ڈالنے کی بجائے لڑتے ہوئے جان دینے کو ترجیح دی۔ آخری رابطوں کے دوران میں نے غازی صاحب سے کہا کہ دونوں طرف مسلمان ہیں ، کوئی راستہ نکالیں کہ مسلمان ایک دوسرے کا خون نہ بہائیں ۔ غازی صاحب نے کہا کہ میں نے بہت کوشش کی لیکن حکومت ہمیں رسوا کرنا چاہتی ہے، یہ سارا معاملہ حکومت کا کھڑا کیا ہوا ہے، حکومت نے اس معاملے میں بہت سے سیاسی مقاصد حاصل کئے اور آخر میں ہمیں رسوا کرکے مزید کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ غازی صاحب کو یقین تھا کہ ان کی موت ہی ان کی فتح اور حکومت کی ناکامی ہوگی۔ وہ کہتے تھے کہ ہماری موت ہماری بے گناہی ثابت کرے گی اور ہمارا بدلہ اس ملک کے غیرت مند مسلمان لیں گے۔ اُنہوں نے اپنی غلطیوں سے کبھی انکار نہ کیا لیکن باربار کہا کہ ہماری غلطی اتنی بڑی نہ تھی۔ ہم نے مساجد کی شہادت پر احتجاج کرتے ہوئے ایک لائبریری پر قبضہ کرلیا، ہم پر گولیاں اور بم برسائے جارہے ہیں جب کہ مساجد شہید کرنے والوں کو کسی نے نہیں پوچھا، غازی نے جان کی قربانی دے کر وہ داغ دھو ڈالا جو ان کے بھائی کی برقعے میں گرفتاری سے ان کے خاندان کی عزت پر لگا تھا۔ میں نے لال مسجد انتظامیہ کے اقدامات کی کبھی حمایت نہیں کی لیکن جس انداز میں لال مسجد کے خلاف طاقت استعمال کی گئی، وہ قابل مذمت ہے۔ حکومت چاہتی تو یہ مسئلہ ایک گولی چلائے بغیر بھی حل ہوسکتا تھا لیکن کچھ عناصر نے دانستہ خونریزی کا راستہ اختیار کیا۔ عبدالرشید غازی مرنے کے بعد پہلے سے زیادہ خطرناک ہوگئے ہیں ۔ اسی لئے اُنہیں اسلام آباد میں ان کے والد کے پہلو میں دفن کرنے کی بجائے روجھان مزاری میں دفن کیا گیا۔ غازی کو اپنے والد کے قتل پر انصاف مل جاتا تو وہ شاید آج بھی وزارتِ تعلیم میں ایک افسر ہوتے۔ اُنہوں نے ناانصافی کے ردِعمل میں بغاوت کی۔ ان کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا، اس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ اس دنیا کی عدالت میں نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ہوگا۔ (روزنامہ جنگ:۱۲/جولائی ۲۰۰۷ء) ٭٭ ٭ 2. ڈاکٹر شاہد مسعود ’میرے مطابق‘ کون تھیں ؟ …کہاں چلی گئیں ؟ جُرم تو صرف اتنا تھاکہ وہ معاشرے سے بدکاری کے خاتمے کا عزم لئے باہر نکلیں اور ایک قحبہ خانہ چلاتی عورت کو سبق سکھانے اپنے ساتھ لے آئیں اور دو تین روز بعد اُسے برقعہ پہناکر … توبہ کروا کے چھوڑ دیا… !! پھر ایک مالش کے مرکز پر جا پہنچیں اور وہاں جسم فروشی کرتی خواتین کو اپنے ہمراہ لاکر خوب جھاڑ پلائی… اور پھر نصیحت کے بعد روانہ کردیا۔ ڈنڈے لے کر گھومتیں مگر کسی کا سر تو نہ پھاڑا، اس وطن عزیز میں جہاں حکمرانوں اور طاقتوروں میں سے ہر دوسری شخصیت کسی لینڈ مافیا سے وابستہ ہے۔ وہ مسجد شہید ہونے کے بعد پڑوس کی ایک لائبریری پرجا دھمکیں ۔ روشن خیال، خوشحال، خوش پوش دار الحکومت کی عظیم الشان کوٹھیوں کے درمیان، جن کی اکثریت رات گئے شراب و شباب کی محفلیں اپنے
Flag Counter