Maktaba Wahhabi

71 - 79
حقائق و وقائع حامدمیر، شاہد مسعود،عرفان صدیقی سانحہ لال مسجد: تین معتبر صحافیوں کی نظر میں 1. حامدمیر ’قلم کمان ‘ مولانا محمد عبداللہ مرحوم اپنے چھوٹے صاحب زادے عبدالرشید غازی سے اکثر شاکی رہتے تھے۔ مولانا صاحب مرکزی رؤیت ِہلال کمیٹی کے سربراہ تھے اور ملک بھر کے علما میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ اُنہوں نے اپنے دونوں بیٹوں عبدالعزیز اور عبدالرشید کو بھی عالم دین بنانے کا فیصلہ کیا۔ عبدالعزیز نے انتہائی رضا و رغبت سے دینی تعلیم حاصل کی، لیکن عبدالرشید کو تاریخ پڑھنے کا شوق تھا، والد کو ناراض کرکے اُنہوں نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے تاریخ میں ایم اے کیا۔ والد ان کی شادی خاندان میں کرنا چاہتے تھے لیکن عبدالرشید غازی نے بڑی منت سماجت کرکے اُنہیں اسلام آباد کی ایک ماڈریٹ فیملی میں شادی کے لئے راضی کیا۔ مولانا عبداللہ کے خاندان کی عورتیں گھر سے باہر نہ نکلتی تھیں لیکن عبدالرشید غازی کی اہلیہ اپنی سوزوکی آلٹو میں گھر سے نکلتیں تو اُنہیں گاڑی چلاتا دیکھ کر کچھ لوگ انگلیاں اُٹھایا کرتے لیکن عبدالرشید غازی کو کسی کی پروا نہ تھی۔ ان کی جدت پسندی کا یہ مطلب قطعاً نہ تھا کہ وہ اسلامی تعلیمات سے دور تھے۔ وہ زمانۂ طالب علمی سے ایک باریش نوجوان تھے لیکن ہمیشہ یہ کہتے کہ اسلام صرف داڑھی اور ڈھیلا ڈھالا لباس نہیں ہے بلکہ اسلام ہمارے اندر بھی ہونا چاہئے۔ ۱۹۹۸ء میں مولانا محمد عبداللہ نے مولانا ظہور احمد علوی، قاری سعید الرحمن اور کچھ دیگر علما کے ہمراہ افغانستان کا دورہ کیا۔ مولانا صاحب اپنے باغی صاحبزادے عبدالرشید غازی کو بطورِ خاص ساتھ لے گئے۔ اس وفد کی قندھار میں ملا عمر اور اُسامہ بن لادن کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ عبدالرشید غازی نے اُسامہ بن لادن سے علیحدگی میں ملاقات کی خواہش ظاہر کی لہٰذا اُن کی ایک گھنٹہ تک علیحدہ ملاقات ہوئی۔ عبدالرشید غازی اپنے والد کی طرح عربی میں رواں نہ تھے لہٰذا اُنہوں نے اُسامہ بن لادن سے انگریزی میں گفتگو کی۔ آخر میں عبدالرشید غازی نے اسامہ بن لادن کے ساتھ پڑا گلاس اُٹھایا اور ان کا استعمال شدہ پانی پی لیا۔ اُسامہ نے حیرانگی ظاہر کی تو غازی نے جواب میں کہا میں نے آپ کا پانی اس لئے پیا تاکہ اللہ مجھے بھی مجاہد بنائے۔ قندھار سے واپسی کے کچھ عرصہ بعد مولانا محمد عبداللہ کو لال مسجد کے احاطے میں ایک نامعلوم شخص نے گولی مار کر شہیدکردیا۔والد کی شہادت نے عبدالرشید غازی کو تبدیل کردیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وہ وفاقی وزارتِ تعلیم میں ملازمت کرتے تھے اور مسجد و مدرسے سے ان کا زیادہ تعلق نہ تھا۔ عبدالرشید غازی اپنے والد کے قاتلوں کے پیچھے پڑ گئے اور آخر کار ایک شخص گرفتار ہوگیا۔ اس شخص کو موقع واردات کے تمام عینی شاہدوں نے شناخت کرلیا لیکن پولیس نے پراسرار طور پر اُسے چھوڑ دیا۔ والد کاقاتل پولیس کے ہاتھوں نکلنے کے بعد عبدالرشید
Flag Counter