ظاہر بات ہے کہ سابقہ چند سالوں کی طرح اپنے قبائلی علاقہ جات میں کسی قسم کی جارحیت کرنا جہاں قومی مفادات کے شدید منافی ہوگا، وہاں ملک کے اندر اس سے نظریاتی کشیدگی میں بھی مزید اضافہ ہوگا۔ وطن کوکمزور کرنے کی لگاتار کوششیں ، قوم کو مزید تقسیم کرنے اور باہم صف آرا کرنے کا تمام تر نقصان پاکستان اور اہل پاکستان کو ہی پہنچے گا۔ قومی وحدت اور ملکی سا لمیت کے ساتھ داخلی امن وامان کو داؤ پر لگا کرکوئی قوم کبھی ترقی نہیں کرسکتی۔البتہ ان تمام اقدامات سے اگر شخصی طورپر کسی کو فائدہ پہنچتا ہے یا عالمی طاقتوں کے مذموم اَہداف پورے ہوتے ہیں تو اس کے لئے پاکستانی عوام کو کیوں قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے؟ پاکستان کا سیاسی منظر نامہ،ق لیگ اور پیپلز پارٹی سے مشرف کے جوڑ توڑ کی تفصیلات اخبارات میں چھپ رہی ہیں اور یہی نظر آتاہے کہ ان حالات میں ق لیگ کے سوا باوردی صدر کسی کو بھی قبول نہیں ۔ ملک کے کسی حلقے میں ان کے بارے میں کوئی حمایت نہیں پائی جاتی، البتہ اس مشکل مرحلہ پر ان کا واحد حمایتی امریکہ ہے جو اپنی حمایت کی نقد قیمت وصول کرکے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ہی پرویز مشرف کے اقتدار کو طول دے رہا ہے۔ اس صورتِ حال میں فیصلہ قوم اور اہل فکر ودانش کو کرنا ہے کہ اُنہوں نے مستقبل میں پاکستان میں نظریاتی تصادم اور داخلی کشمکش کو مزید ہوا دینے والے حکمرانوں کو موقع دینا ہے، یا اپنی عقل وبصیرت کو کام میں لاکر محب وطن اور اسلام پسندعناصر کی حمایت کرنا ہے ۔ قوم کو منظم کرنا مختلف سیاسی، دینی اور معاشرتی رہنماؤں کا کام ہے، تب ہی بظاہر نظر آنے والے متوقع مکروہ مستقبل سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے ۔پاکستان عالمی قوتوں کی سرپرستی میں سیکولر قوتوں کے اشتراک سے جبر وتشدد کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے جس پر باخبر صحافی حامد میر نے ’لبرل فاشزم‘ کے نام سے ۳۰ جولائی کے روزنامہ جنگ میں مستقل کالم لکھ کر قوم کو توجہ دلائی ہے۔ یہ وقت باخبر و متوجہ ہونے اور مثبت سمت میں اپنی صلاحتیں کھپانے کا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں شعور اور فراست کے ساتھ اپنے فیصلے کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ |