اس دھمکی کا منشا یہ ہے کہ اگر پاکستان اپنی سلامتی چاہتا ہے تو اسے اپنے قومی، سیاسی اور عدالتی رجحانات کواس رخ پر موڑنا چاہئے جہاں پاکستان کے اقدامات امریکی مفادات سے ہم آہنگ ہوجائیں ۔ بصورتِ دیگر ایک سنگین الزام کی شکل میں پاکستان پر جارحیت کی پیش بندی پہلے سے کی جاچکی ہے۔یہ انتظام بطورِ خاص مشرف کی شدید کمزوری اور نظریاتی جنگ کے فیصلہ کن مرحلے، بالخصوص قومی انتخاب کے مرحلے پر کیا جارہا ہے کہ اگر پاکستان میں اسلام یا پاکستان پسند قوتیں اقتدار میں فیصلہ کن حیثیت حاصل کرلیتی ہیں تو امریکی حکومت کی جارحیت کا تحفہ ختم ہونے والی حکومت کی طرف سے اُنہیں وراثت میں حاصل ہوگا۔ پاکستان میں مداخلت اور قبائلی علاقوں پر حملوں کے جواز کے لئے امریکہ میں دہشت گردی کا کوئی فرضی واقعہ رو بہ عمل لانا امریکی حکومت کے لئے کوئی گھاٹے کاسودا نہیں لیکن اس سے پہلے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو حکومت ِپاکستان کے تصرف سے خارج کرنے کی بھرپور کوشش ہوگی۔ چنانچہ اپنے اعزاز کے تحفظ کی طرف بھی قوم کے ہمدردوں کو پوری توجہ دینا ہوگی۔ اس پیش بندی کا اندازہ ۲۹ جولائی کی اس خبر سے بھی ہوتا ہے جس میں پاکستان کو ملنے والی امداد کو اس امر سے فوری طورپر مشروط کردیا گیا ہے کہ ’’امریکی سینٹ نے یکم اکتوبر کو ملنے والی ۷۰ کڑوڑ ڈالر کی امریکی امداد کو اس امر سے مشروط کردیا کہ جب تک صدر اس امر کی تصدیق نہیں کردیتے کہ پاکستان دہشت گردوں کے ٹھکانے اور ان کی حمایت ختم کرنے کے واضح اقدامات کررہاہے۔ بصورتِ دیگر یہ فوجی امداد اور آئندہ سال متوقع ملنے والے ۸۰ کڑوڑ ڈالر کی امداد بھی بند ہوسکتی ہے۔ اس بل کی حمایت میں ۸ کے مقابلے میں ۸۵ ممبرانِ سینٹ نے ووٹ ڈال کر منظوری کیلئے صدر کو پیش کردیا۔ ‘‘ موجودہ پریشان کن حالات میں پاکستان کو مزعومہ دہشت گردی کے خلاف اپنے بظاہر قریبی دوست سے ایسے رویے کا سامنا ہے جو مشکل صورتحال میں اپنے پیشہ وارانہ اہداف کو ہی مد نظر رکھ کر مزید سے مزید کا مطالبہ داغ دیتا ہے۔امریکہ نے جامعہ حفصہ کے واقعے، عدالتی فیصلے اور چین سے دوری کے سنگین مسائل میں صدر مشرف کی غیرمقبولیت کو بھانپتے ہوئے قریبی انتخاب میں ان کے تسلسل کے لئے نہ صرف اپنا تما م وزن ان کے پلڑے میں ڈال دیا ہے بلکہ ان سے اس عنایت کا نقد حقِ خدمت وصول کرنے کے لئے بھی ایک دوٹوک تقاضا پیش کردیا ہے۔ |