’’وائٹ ہاؤس کے ترجمان ٹونی سنو نے کہا کہ امریکہ کو پاکستان کے قبائلی علاقوں پر حملوں کا حق حاصل ہے۔ وزیرخارجہ قصوری نے کہا کہ اگر امریکہ کے پاس اطلاعات ہیں تو ہمیں بتائے، ہم خود کاروائی کریں گے۔ جس کے جواب میں امریکہ نے کہا کہ القاعدہ کی قیادت قبائلی علاقوں میں ہے۔ ہم اسامہ، ظواہری اور القاعدہ سے نمٹنے کے لئے اپنے آلات کسی کو فراہم نہیں کرسکتے۔ ‘‘ (ایکسپریس: ۲۵ جولائی، صفحہ اوّل) یہ بیان صاف اس حکومتی خواہش کی غمازی کررہا ہے کہ اگر امریکہ یہ اقدام کرنا ہی چاہتا ہے تو اسے اس مقصد کے لئے اپنے ساتھیوں پر اعتماد کرنا چاہئے اور ان کے اشتراک سے قبائلی علاقوں پر کاروائی کرنی چاہئے۔ دوسرے لفظوں میں پاکستانی فوج کو اس آپریشن میں اپنے ساتھ لینا چاہئے تاکہ نہ تو قومی خود مختاری کا مسئلہ آڑے آئے اور نہ ہی موجودہ پاکستانی حکومت امریکی سرپرستی سے محروم ہوکر رہ جائے۔ واضح رہے کہ افغانستان کی شمالی سرحد جو ایران سے ملتی ہے، پر بھی طالبان کی کافی قوت موجود ہے لیکن اس کے باوجود افغانستان کی صرف جنوبی سرحد پر ہی سارا زور دینا اور قبائلی علاقہ جات کو اپنی دلچسپیوں اور جارحیتوں کا مرکز بنانا مستقبل میں اس امریکی سازش کا آئینہ دار ہے جس میں بھارت کے لئے کشمیر کی طرح ، پاکستان کے لئے ان علاقوں کوایک مستقل دردِ سر بنانے کی مکروہ منصوبہ بندی کارفرما ہے۔ اس سے پاکستان کو اپنے اندرونی مسائل میں ہی اُلجھا کرہمسایہ ملک بھارت کو آزادی سے علاقائی تھانیدار کا کردار ادا کرنے کے قابل بنانا بھی پیش نظر ہے جس کے لئے امریکہ نے بھارت سے جوہری ہتھیاروں سمیت زندگی کے ہرپہلو پر تعاون میں کافی اضافہ کردیا ہے۔ یہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ امریکہ کے یہ تقاضے یہاں تک ہی محدود نہیں رہیں گے بلکہ ماضی کی طرح ہرآن اُن میں اضافہ (Do more)ہی ہوتا رہے گا۔جیسا کہ باخبر لوگوں کا کہنا ہے کہ لال مسجد کا سانحہ مئی میں تین امریکی عہدیداروں (رچرڈ باؤچر، ولیم فالن اور نیگرو پونٹے) کی آمد اور مذاکرات کا نتیجہ ہے جب اُنہوں نے مشرف حکومت کی کارکرگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے انہیں مزید کچھ کردکھانے کی تلقین کی اور اس سانحہ کے بعد اب مزید مطالبہ داغ دیا۔ 4. مشرف کے اقتدار کے خاتمے پر امریکی جارحیت کی دھمکی: امریکی بیان کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ امریکہ کو پاکستان میں مشرف کی زیر نگرانی سیکولر حکومت ہی گوارا ہے۔ |