2. امریکی حکومت کا داخلی مفاد: پاکستان میں جس جارحیت کاامریکی حکومت نے واضح طورپر اشارہ دیا ہے، اس کا ایک مقصد بش انتظامیہ کا داخلی مفاد بھی ہے، کیونکہ ان کی حکومت غیرمقبولیت کی آخری حدوں کو چھورہی ہے اور مستقبل قریب میں ہونے والے امریکی انتخاب میں اُنہیں امریکی عوام کے سامنے کوئی ایسا کارنامہ پیش کرنا ہوگاجس سے ری پبلکن کا اقتدار میں معقول حصہ برقرار رہ سکے۔ یا کم از کم قوم کو جنگی مسائل میں مشغول کرکے اُنہیں بیرونِ ملک اَہداف پر مجتمع کیا جاسکے۔ بش انتظامیہ کو اپنی ساکھ بحال کرنے کے لئے اُسامہ بن لادن کا ہوا دوبارہ کھڑا کرنے اور امریکی قوم کی حمایت حاصل کرنے کے لئے کسی بھی اِقدام کی ضرورت پڑی تو بش حکومت اس سے قطعاً دریغ نہیں کرے گی۔ امریکی حکومت کی اسی داخلی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ۲۷ جولائی کے اخبارات میں پاکستانی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کا یہ بیان شائع ہوا ہے کہ ’’امریکی انتخابات پاکستان کی قیمت پر نہیں لڑے جانے چاہئیں ۔ اگلے سال ہونے والے امریکی انتخابات میں پاکستان کو قربانی کا بکرا نہیں بنانا چاہئے۔‘‘ (نوائے وقت) ۲۸ جولائی کو سینٹ کے اجلاس کے دوران اس موضوع پر مختلف ممبران نے اپنے شدید ردّ عمل کا اظہار کیا جہاں سابق سیکرٹری خارجہ ریاض کھوکھر نے کہا کہ ’’افغانستان اور عراق میں امریکہ فیل ہوچکا ہے،اگلے سال امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں کامیابی کے لئے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے۔ امریکہ اس وقت پاکستان میں دہشت گردوں کو استعمال کررہا ہے۔‘‘ (ایکسپریس: ۲۹/ جولائی ) 3. پاکستان میں اپنے مفادات کا حصول:چونکہ صدر مشرف ان دنوں کمزور ترین سیاسی حیثیت میں ہیں ، اس لئے ان کے پاس اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے ہرممکنہ حد تک امریکہ پر انحصار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ صدر کی اس کمزور حیثیت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے امریکہ نے فوری طورپر وزیرستان میں کاروائی کا اشارہ دے دیا ہے جس کا ردّعمل یہ ہوا ہے کہ پاکستانی حکومت نے جہاں ڈھکے چھپے الفاظ میں اس پر احتجاج کا اظہار کیا ہے، وہاں پر ایک ذومعنی آمادگی بھی موجود ہے۔ چنانچہ حکومتی مشیر سید مشاہد حسین کا بیان شائع ہوا ہے کہ ’’ہم شمالی علاقہ جات میں امریکہ کے اکیلے اقدام کی حمایت نہیں کرتے۔‘‘ مزید برآں اخبارات میں امریکہ اور پاکستانی وزیر خارجہ کا یہ بیان بھی شائع ہوا ہے : |