کے اندر ایک طوفان نے جنم لیا۔ اُنہوں نے دینی علوم کا مطالعہ شروع کیا اور چند سالوں میں لال مسجد کے نائب خطیب بن گئے۔ جنوری ۲۰۰۷ء میں اسلام آباد میں سات مساجد کو شہید کیا گیاتو لال مسجد سے ملحقہ مدرسہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی طالبات نے ایک قریبی سرکاری لائبریری پر قبضہ کرلیا۔ لائبریری پر قبضہ مولانا عبدالعزیز اور ان کا اہلیہ اُمّ حسان کا تھا۔ عبدالرشیدغازی اس فیصلے کے خلاف تھے لیکن اُنہوں نے بڑے بھائی کے احترام میں سرعام اختلافِ رائے نہیں کیا۔ لائبریری کا قبضہ ختم کرانے کے لئے وفاقی وزیر اعجاز الحق اور وفاق المدارس نے کوششیں کیں ۔ کم از کم دو مرتبہ عبدالرشید غازی لائبریری کا قبضہ ختم کرانے کے قریب پہنچ گئے لیکن ہرمرتبہ حکومت نے ایک اور مسجد کو نوٹس جاری کرکے ان کوششوں پر پانی پھیر دیا۔ ایک موقع ایسا بھی آیا جب عبدالرشید غازی نے مجھے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت جان بوجھ کر یہ مسئلہ زندہ رکھنا چاہتی ہے تاکہ دینی مدارس کو بدنام کرسکے۔ طے ہوا کہ حکومت کی ہر طرح کی اشتعال انگیزی کے باوجود لائبریری کا قبضہ ختم کردیں گے۔ افسوس کہ مولانا عبدالعزیز اپنے چھوٹے بھائی کی بات نہ مانے کیونکہ اُنہیں کچھ ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی حاصل تھی جو کچھ حکومتی اداروں کی سرپرستی میں تھے۔ مجھے وہ لمحات بھی یاد ہیں جب عبدالرشید غازی اپنے بھائی کی ہٹ دھرمی کے خلاف بغاوت پر اتر آئے لیکن ان کی والدہ آڑے آگئیں ۔ والدہ نے غازی سے کہا کہ بڑے بھائی کا ساتھ کبھی نہ چھوڑنا۔ والدہ کے حکم پر غازی نے سرجھکا دیا، پھر آنٹی شمیم اغوا ہوئی، پولیس اہلکار اغوا ہوئے اور چینی باشندے اغوا ہوئے۔ کس کے حکم سے اغوا ہوئے؟ یہ تو عبدالرشید غازی کو معلوم نہ ہوتا تھا لیکن میڈیا میں لال مسجد کا دفاع بڑے بھائی کا حکم تھا اور وہ اس کی تعمیل کرتے رہے۔ عبدالرشید غازی اور ان کے بھائی پر بہت سے الزامات لگے۔ اہم ترین الزام یہ تھا کہ اُنہوں نے حکومتی اداروں کی ملی بھگت سے ایک ڈرامہ رچا رکھا ہے تاکہ عوام کی توجہ عدالتی بحران سے ہٹی رہے۔ خود بے چارے غازی کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ اس الزام کو غلط کیسے ثابت کریں ۔ جنوری ۲۰۰۷ء کے آخری ہفتے میں جنرل پرویز مشرف پر بھی یہ الزامات لگنے لگے کہ وہ جان بوجھ کر لال مسجد کے ذریعہ گڑبڑ پھیلا رہے ہیں ۔ وجہ یہ تھی کہ چودھری شجاعت حسین کے لال مسجد والوں کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوگئے لیکن اُنہیں کہا گیا کہ آپ مذاکرات کو لمبا کریں ۔ چودھری صاحب سے رہا نہ گیا اور اُنہوں نے مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری حکومت پر عائد کردی۔ آخری ملاقات میں عبدالرشید غازی نے چودھری صاحب سے کہا کہ آپ مخلص انسان ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ حکومت اس مسئلے کو کچھ مزید لمبا کرے گی اور مناسب وقت پر ہمیں ختم کرکے امریکہ کے سامنے سرخرو ہوجائے گی۔ ایک دن عبدالرشید غازی نے بھی کہا کہ اگر ہم واقعی قصوروار ہیں تو کیا حکومت ہماری بجلی پانی بند نہیں کرسکتی؟ ہم پھر بھی باز نہ آئیں تو اعصاب شکن گیس پھینک کر ہم سب کو گرفتار نہیں کرسکتی؟ ۷ جولائی کو چودھری شجاعت حسین نے مجھے بلایا اور کہا کہ وہ آخری مرتبہ عبدالرشید غازی کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں لیکن جو فون نمبر ان کے پاس تھے وہ سب بند ہوچکے ہیں ۔ چودھری صاحب دوبارہ رابطہ چاہتے تھے، میں نے کوشش کرکے عبدالرشید غازی سے رابطہ کیا اور اُنہیں چودھری صاحب کی خواہش سے آگاہ کیا۔ عبدالرشید غازی ہنسے اور بولے کہ چودھری صاحب معصوم ہیں ، وہ نہیں جانتے کہ ہمیں مارنے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ |