Maktaba Wahhabi

72 - 79
ہی میں ساری تعلیم حاصل کی اور وہیں سلسلۂ تدریس سے وابستہ رہے۔ ایسے ماحول میں رہ کرعربی انشا پردازی میں اتنی استعداد بہم پہنچا لینا کہ عرب بھی اس پر انعام دینے پر مجبور ہوجائیں ، بلا شبہ ان کی غیرمعمولی ذہانت و فطانت اور اعلیٰ قابلیت کی ایک واضح دلیل ہے۔ ذلک فضل اللّٰه یؤتیہ من یشاء وﷲ ذوالفضل العظیم! پھر ’الرحیق المختوم‘ کو اُردو کے حسین قالب میں بھی اُنہوں نے خود ہی ڈھالا جس سے ان کے اُردو اسلوب میں بھی پختگی کا ثبوت ملتا ہے۔ ’الرحیق المختوم‘ جب عربی اور اُردو دونوں زبانوں میں شائع ہوئی تو نہ صرف ان کی شہرت بامِ عروج پر پہنچ گئی بلکہ دنیوی ترقی کے راستے بھی ان پر وَا ہوگئے۔ اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد ان کو الجامعۃ الإسلامیۃ مدینہ منورہ کے ایک ذیلی شعبے ۔ مرکز السیرۃ النبویۃ ۔ میں بطورِ محقق ذمہ داری سونپ دی گئی جس میں ان کے ذمے سیرتِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلقہ تاریخی و حدیثی مواد کی تحقیق و تنقیح کا کام تھا۔ ۱۹۹۳ء میں راقم کی ان سے مکتبہ دارالسلام، الریاض (سعودی عرب) میں ملاقات ہوئی۔ جب راقم وہاں تفسیر ’احسن البیان‘کی تالیف میں مصروف تھا، تو ان سے ان کے مذکورہ کام کی بابت پوچھا کہ وہ کس قسم کاکام ہے اور وہاں کام کی نوعیت کے اعتبار سے وہ مطمئن ہیں ؟ تو فرمایا کہ یہ ادارہ صرف علما کو نوازنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ یوں گویا اُنہوں نے کام کی نوعیت کے اعتبار سے عدمِ اطمینان فرمایا۔ اس پر راقم نے ان سے عرض کیا کہ جب معاملہ ایسا ہے تو آپ جیسے باصلاحیت اَفراد کو ٹھوس علمی و تحقیقی کام کرنا چاہئے اور یہ واقعہ ہے کہ اللہ نے ان کو علم وتحقیق کی جو گہرائی و گیرائی اور اِنشاء و تحریر کا جو سلیقہ عطا فرمایا تھا، وہ علماے اہل حدیث میں بہت کم پایا جاتاہے، اس اعتبار سے وہ بلا شبہ یکتاے زمانہ اور اپنے اَقران و اماثل میں نہایت ممتاز تھے۔ لیکن غالباً مولانا کثیرالعیالی کی وجہ سے اس ادارے سے ہی وابستہ رہے۔ تاہم اس دوران میں دارالسلام سے بھی ایک گونہ تعلق اُنہوں نے قائم رکھا، اور دارالسلام کے بعض علمی و وقیع کاموں کی نگرانی و نظرثانی فرماتے رہے۔ راقم کی تفسیر ’احسن البیان‘ پر بھی انہی ایام میں اُنہوں نے نظرثانی فرما کر اپنی توثیق کی مہر اس پرثبت فرمائی تھی۔ راقم اپنی یہ مختصر تفسیر … جو نہایت عجلت اور مختصر وقت میں تحریر کی گئی تھی… اپنے الریاض کے چار مہینے پر محیط قیام کے
Flag Counter