Maktaba Wahhabi

2 - 79
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ فکر و نظر حدود قوانین میں ترامیم کا بل ۲۰۰۶ء ؛ ایک جائزہ آخر کارحدود آرڈیننس میں اس ’روشن خیال ‘ترمیم کے چہرے سے پردہ اُٹھ ہی گیا جس کے بارے میں تمام ذمہ داران کو اسمبلی میں باقاعدہ پیش ہونے سے قبل مخفی رکھنے کی تاکید کی گئی تھی۔ اور اس ترمیمی بل کے لئے فضا کو ساز گار بنانے کے غرض سے ۳ ماہ سے قوم کو مضحکہ خیز اور یک طرفہ پروپیگنڈ ے کے بخار میں مبتلا کیا گیا تھا جس پر بظاہر تو ایک اخباری گروپ نظر آرہا تھا لیکن اس کی پشت پناہی کے لئے حکومت کی پوری ابلاغی مشینری متحرک تھی۔ سوال یہ ہے کہ ’’حدود اللہ پر بحث نہیں ، لیکن حدود آرڈیننس کوئی خدائی قانون نہیں ۔‘‘ کا نعرہ بلندکرنے اور اسے حدود قوانین پربحث کی وجہ جواز بنانے والوں نے جو ترامیم پیش کی ہیں ، کیا اب وہ اللہ کی طرف سے براہِ راست نازل شدہ ترامیم لیکر آئے ہیں ۔ حدود قوانین کے نفاذ کے موقع پر اگر مسلمانانِ پاکستان کو ان پر اتفاق تھا جسے بعد کی ۵ اسمبلیوں نے سند ِجواز بخش کر صدارتی آرڈیننس سے ’حدود قوانین‘ کا درجہ دیا، تین بار مختلف اسمبلیوں میں ان قوانین میں ترمیم کا بل پیش ہوا جسے سند ِقبولیت نہ مل سکی، تو ا س کے بالمقابل وہ ’خدائی‘ترامیم جو اپنے یومِ آغاز سے پوری قوم کو منتشر کرچکی ہیں ، ان کی کیا حیثیت ہے؟ جس کا ثمرہ یہ ہے کہ پوری قوم میں ہر جگہ مباحثہ ومجادلہ کی کیفیت طاری ہے۔ پھر’حدود قوانین‘ کوئی عام قانون نہیں کہ اس میں علماے دین کی رائے کو نظر انداز کردیا جائے بلکہ حدود قوانین میں ترمیم خالصتاً شریعت ِاسلامیہ کا موضوع ہے۔اس لئے منطقی طور پر قرآن وسنت پر مبنی قوانین پر تبصرہ کرنے کی سب سے پہلی ذمہ داری علماے کرام ہی کے کندھوں پر آتی ہے۔لیکن سخت کوشش کے باوجود منبر و محراب سے اس ’روشن خیال بل‘ کی حمایت میں ایک لفظ بھی ادا نہیں کروایا جاسکا ۔
Flag Counter