Maktaba Wahhabi

57 - 64
طلبہ ایک خشک قسم کے فقہی مسئلہ پر تقریر سننے سے اکتاہٹ کا اظہار کر رہے ہیں تو فوراً اس مسئلہ سے متعلق کوئی لطیفہ یا دلچسپ قصہ بیان کر دیتے جس سے مجلس کشتِ زعفران بن جاتی اور وہ تازہ دم ہو کر تقریر سننا شروع کر دیتے۔ سید سابق مرحوم رحمۃ اللہ علیہ محض فقہی گتھیاں سلجھانے کے ماہر نہ تھے بلکہ بین الاقوامی سیاست پر بھی گہری نگاہ رکھتے تھے اور ملک بھر کے اہم اخبارات کی اہم اہم سرخیوں اور اداریوں کا مطالعہ کرتے اور پرنٹ میڈیا کے بل بوتے پر سر اُٹھانے والے فتنوں کا سر کچلنے کے لئے قلمی اور لسانی جہاد میں شریک ہو جاتے۔ آپ کے ملاقاتی جب کبھی آپ سے ملاقات کرنے جاتے تو اس وقت آپ یا تو نوافل ادا کر رہے ہوتے یا کتب کا مطالعہ کر رہے ہوتے یا وہ گمراہ فکر لوگوں کے الحاد کی تردید لکھ رہے ہوتے تھے۔ اگرچہ آپ جسمانی طور پر نحیف و نزار تھے، لیکن سینے میں شیر جیسا دل رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے میدانِ جہاد میں اعدائے دین اور جیل میں ظالم حکمرانوں کے سامنے پامردی اور استقلال کا ثبوت دیا اور کسی طرح کی کمزوری نہیں دکھائی بلکہ جیل میں دوسروں کے حوصلے بھی بلند رکھے۔ جمال عبد الناصر جیسے جابر حکمران کے دور میں جب آپ کو جامع عمرو بن العاص میں شیخ احمد الغزالی کا خلف الرشید متعین کیا گیا تو لوگوں کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوا کہ آپ سابقہ خطبا کے انجام سے سبق حاصل کریں گے اور مداہنت کا مظاہرہ کر کے حکمرانوں کے پاؤں پکڑ لیں گے اور ان کی ہاں میں ہاں ملائیں گے، لیکن آپ نے اپنے پہلے خطبے میں شرعی دلائل اور تاریخی شواہد سے مسلم حکمران کی چودہ شرائط پر کھل کر بیان کیا اور ایسا بے مثال خطبہ دیا کہ حکمرانوں کے دجل و فریب کے بخیے اُدھیڑ دیئے اور ان پر ایسی تنقیدِ سدید کی کہ حاضرین عش عش کر اُٹھے اور آپ کی یہ تنقید ایسی عالمانہ اور فاضلانہ تھی کہ حکمرانوں کو اس پر گرفت کا بہانہ بھی نہ ملا۔ آپ کا مرتبہ اور مقام: جس طرح پیڑ اپنے پھل سے، حکمران اپنی رعایا سے اور پھول اپنی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے، اسی طرح استاد اپنے شاگردوں سے پہچانا جاتا ہے۔ شیخ سید سابق رحمۃ اللہ علیہ نے یوں تو ہزاروں شاگردوں کی تریت کی اور اُنہیں جہالت کی موت سے علم کی زندگی بخشی اور وہ عالم اور دانشور
Flag Counter