Maktaba Wahhabi

58 - 64
بن کر زمین میں یوں چمکے جس طرح آسمان پر تارے چمکتے ہیں۔ لیکن آپ کے چند شاگرد ایسے ہیں جو عالم اسلام میں بالعموم اور عالم عرب میں بالخصوص آفتاب بن کر چمکے اور ان کی تابانیٔ علم سے علمی دنیا جگمگا اُٹھی اور وہ ہیں: ڈاکٹر یوسف قرضاوی، ڈاکٹر احمد عسال، ڈاکٹر محمد الراوی، ڈاکٹر عبد الستار اور بہت سے دیگر علمائے مکہ مثلاً ڈاکٹر صالح بن حمید اور ڈاکٹر علیانی وغیرہ۔ آپ نہ صرف سن کہولت میں مرجع و علماء و طلباء تھے بلکہ جوانی میں بھی اپنے دور کے کبار علما مثلاً شیخ احمد الغزالی، شیخ ابو زہرہ، شیخ محمود شلتوت وغیرہ کے معتمد تھے۔ آپ کے صاحبزادے محمد کا بیان ہے کہ شیخ عبد الجلیل عیسیٰ اور شیخ منصور رجب اور شیخ باقوری جیسے کبار اساتذہ ہمارے ہاں تشریف لاتے تو وہ والد مرحوم کے درس کو یوں منہمک ہو کر سنتے، گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ آپ کے آخری تین سالوں کی مصروفیات اور وفات: آپ نے اپنی حیاتِ مستعمار کے آخری تین سال اپنے آبائی ملک مصر میں بسر کئے اور آپ کی مصروفیات حد سے زیادہ بڑھ گئیں۔ کوئی دن ایسا خالی نہ جاتا جس دن آپ اپنے گھر میں آرام سے بیٹھے ہوں۔ اس عرصے میں آپ کہیں تو مردوں کے حلقوں میں لیکچر دیتے اور کہیں عورتوں کے حلقے میں درس دیتے۔ ڈاکٹروں نے آپ کے بیٹے ڈاکٹر مصطفےٰ سے کہا کہ آپ اپنے والد صاحب کو اتنی سخت مصروفیات سے روک دیں، ورہ یہ وزانہ کے دروس ان کے لئے جان لیوا ثابت ہوں گے اور اُنہوں نے اپنے والد تک یہ بات پہنچائی بھی، لیکن آپ نے فرمایا کہ جب تک جسم میں جان ہے میں قرآن و سنت کے پیاسوں کو جامِ طہور پلاتا رہوں گا۔ بالآخر ستر سال سے زیادہ عرصے تک دعوت و تبلیغ کا فریضہ سرانجام دینے کے بعد آپ نے داعی حق کو لبیک کہا اور شدید بخار کی حالت میں قاہرہ ہسپتال میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ آپ کی وفات کی خبر مصر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور لوگوں کی کثیر تعداد ہسپال میں پہنچ گئی اور اُنہوں نے اتنی محبت اور احترام سے آپ کا جسدِ خاکی اُٹھایا کہ گویا آپ ان کے شفیق و مہربان باپ ہوں۔ جب دنیا نے لاکھوں کی تعداد میں شرکائے نمازِ جنازہ کو دیکھا تو پکار اُٹھی کہ ھٰكذا تكون جنائز أھل السنة۔ رحمة اللّٰه رحمة واسعة ورفع درجته في المھديين وجعله من الساكنين في جنة الفردوس۔ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متوالوں کے جنازے ایسے ہی ہوتے ہیں، اللہ ان کی مغفرت کرے!
Flag Counter