Maktaba Wahhabi

51 - 64
و آخر دہشت گردی سے تعلق رکھتی ہیں۔ اگر ہم صدقِ دِل سے موجودہ دہشت گردی کے اصلی اسباب کا جائزہ لیں تو ان کا سراغ ہمیں بہت جلد مل جائے گا۔ میں اس سیمینار میں تشریف لانے والے معتدل مزاج مقررین کی سوچ سے مکمل اتفاق رکھتا ہوں۔ میں ہمیشہ اس امر کو پیش نظر رکھتا ہوں کہ اسلام دشمن، مسلمانوں کو وہ سنی ہوں یا شیعہ، اُنہیں اپنا برابر کا دشمن سمجھتے ہیں لیکن مسلمان دین کے حوالے سے جزوی مسائل میں اختلافات کی شدت کا شکار ہیں۔ حالانکہ ان احکامات کی تعمیل کا جواب ہر فرد کو اللہ کے حضور دینا ہے۔ ہر ایک کو دوسروں کا محاسبہ کرنے کی بجائے اپنے محاسبے پر توجہ دینی چاہئے۔ میں اپنی گفتگو کے آخر میں تمام امن پسند قوتوں کو اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ وہ بین الاقوامی اور بین المذہبی ڈائیلاگ (Interaction) کو اہمیت دیں، تاکہ وہ مذہبی تعصب کے حوالے سے ان محرکات اور عوامل کا ازالہ کر سکیں جن کے نتیجے میں تخریب کاری کے یہ ناپسندیدہ واقعات وقفے وقفے مگر تسلسل سے رونما ہوتے رہتے ہیں۔ عالم اسلام پر بالعموم اور پاکستان پر بالخصوص یہ بڑا کڑا وقت ہے جس میں صرف چند جذباتی لوگوں کی نادانی کے باعث ہم ایک سخت آزمائش سے دو چار ہیں۔ دین و شریعت کے حوالے سے بھی ہم اقوامِ عالم میں برابر اور حمیت کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہیں اور دوسروں کے تہذیبی، سیاسی اور ثقافتی حقوق کا احترام بھی کرنا چاہتے ہیں۔ میں اس سیمینار کے منتظمین کا شکر گزار ہوں کہ ان کی یہ کاوشیں ایسی روایت کا آغاز کریں گی جو بالآخر اقوام عالم کو مسلمانوں کا موقف سمجھنے کا موقع دیں گی اور غیر مسلم اقوام کو اپنے طرزِ عمل پر خود احتسابی کا آئینہ دکھائیں گی۔ مشرق ومغرب میں تخریب کاری اور انتہا پسندی کا یہ عفریت اقوامِ عالم کے باہمی احترام، روابط اور جذبہ مفاہمت کے مقابلے میں شکست سے دو چار ہو گا، ان شاء اللہ۔ اسلام کل بھی امن پسندی کا دین تھا، آج بھی اس کا موقف عادلانہ ہے اور مستقبل میں بھی یہ اپنی ذمہ داریوں کا بھرپور ادراک رکھتا ہے۔ میں اس سیمینار کے اعلیٰ مقاصد کے لئے دُعاگو ہوں اور اس کے بہتر اثرات کی توقع رکھتا ہوں۔
Flag Counter