نہیں کر سکتی لیکن یہ مسئلہ اتنا بگڑ چکاہے کہ اب اس کے خاتمہ کے لئے عالمی برادری کو بالعموم اور اُمتِ مسلمہ کو بالخصوص نمایاں کردار انجام دینا ہو گا۔ اسلام اپنے عقیدے اور مزاج کے علاوہ تاریخی لحاظ سے بھی امن پسندی، صلح جوئی اور عالمی بھائی چارے اور دوسرے ادیان کے احترام کا علمبردار ہے، اس کے بارے میں تشدد کی تہمت اور جبر کا الزام، عالمی پریس میں عام کیا جا رہا ہے کہ اسلام انتہا پسندانہ دین ہے حالانکہ اسلام نہ تو انتہا پسندی کی حمایت کرتا ہے اور نہ ہی مسلم امت اس قسم کے منفی ہتھکنڈوں اور تخریبی کارروائیوں کو پسند کرتی ہے۔ ڈیڑھ ارب کی مسلمان آبادی اور ۶۰ کے قریب اسلامی ریاستوں میں سے بلاشبہ کوئی گروہ یا ملک یا اسلامی جماعت دہشت گردی اور انتہا پسندی پر یقین نہیں رکھتی۔ مسلمان خود امن پسند ہیں اور امن پسندانہ سرگرمیوں کے فروغ پر گہرا اعتماد رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کے اندر سے اگر کہیں رد عمل کے طور پر کچھ انفرادی واقعات فرض بھی کر لیے جائیں تو اس کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ پوری ملتِ اسلامیہ اس انتہا پسندی اور دہشت گردانہ سوچ کی حامل ہے۔ آج کی تقاریر اور خطابات میں اس مسئلہ کو سمجھنے اور اس کو حل کرنے کی ہت سی مثبت تجاویز شامل ہیں۔ اس موقع پر میں مغری سپر قوتوں اور غیر مسلم حضرات سے یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ وہ غیر جانبدار ہو کر پیش آمدہ مسائل کا تجزیہ کریں اور اس کے حقیقی اسباب تلاش کریں تو اس کے تدارک کی راہیں اُنہیں بہت جلد مل جائیں گی۔ ان شاء اللہ! احبابِ گرامی! پاکستانی معاشرہ الحمد للہ ایک مہذب نظریہ اور باوقار اساس رکھتا ہے جہاں تخریبی کارروائیوں کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہم تھوڑا سا ماضی میں جھانکنے کی کوشش کریں کہ ۲۵،۲۰ سال پہلے افغانستان کی سرزمین پر مشرقی سامراج یعنی سوویت یونین نے جس ننگی جارحیت کا ارتکاب کیا، اس کے دفاع کے لئے امریکی سرپرستی میں ہی عالمی اتحاد نے جان سپاری کا ایک اچھوتا تاریخی کارنامہ انجام دیا تھا جسے مغربی اقوام بالخصوص امریکہ نے بھی اس وقت کے اپنے خاص مفادات کے پیش نظر پسندیدگی کی نظر سے دیکھا مگر اس کے اثرات مٹانے کے لئے جلد ہی کچھ قوتوں نے دنیا کے نقشے پر ایسی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا جو اوّل |