Maktaba Wahhabi

59 - 79
جائے! جن لوگوں نے بس اس دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ رکھا ہو اور کذب و زُور ہی کی بنیاد پر لوگوں کو اپنے ساتھ ملائے رکھنے کا وطیرہ اپنا لیا ہو اور اپنی الزام تراشیوں ، کذب بافیوں اور افترا پردازیوں ہی کے ذریعہ چند لوگوں کو غلط فہمیوں میں مبتلاکرڈالنے ہی کو کامیابی سمجھ رکھا ہو اور اپنی غلط بیانیوں کے باعث لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے ہی کو فوز وفلاح قرار دے رکھا ہو، اُنہیں اس سے کیا غرض کہ ان کی یہ بہتان تراشیاں اور افترا پردازیاں سنجیدہ طبقے میں ان کے متعلق کیا تاثر پیدا کررہی ہیں ؟ آخر میں ، میں یہ عرض کردینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نے یہ چند سطور صرف اس لئے لکھی ہیں کہ علامہ اقبال کی وفات کے بعد ان کی ذات کے احترام اور ان کے کلام کی تشریح کی آڑ میں ’طلوعِ اسلام‘ نے انہیں منکر حدیث قرار دے کر ان کی روح پر جو ظلم عظیم روا رکھا ہے، اس کا نہ صرف یہ کہ سدباب ہوجائے بلکہ علامہ اقبال کی نظر میں حدیث و سنت کا جو مقام ہے، وھ بھی واضح ہوجائے۔ ورنہ ہمارے نزدیک اقبال مرحوم کی ہرگز ہرگز یہ حیثیت نہیں ہے کہ انہوں نے اگر قرآن کے ساتھ حدیث کا نام لیاہے تو ہم بھی ان کی اتباع و تقلیدمیں ایسا کر گزریں ۔ ہم قرآن و سنت کو اسلام کا مستقل سرچشمہ تسلیم کرتے ہیں ،ہم کتاب بلاپیغمبر اور قرآن بلا محمد کے قائل نہیں ہیں ۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اگر نہ بھی پیدا ہوتے، تب بھی اہل ایمان کے لئے ہدایت کا سرچشمہ قرآن وسنت ہی مانے جاتے، جیسا کہ ان کی ولادت سے قبل بھی ان کی حیثیت مسلم رہی ہے ۔ قرآن و سنت کا یہ مقام دورِ نبوی سے اب تک تواتر و تسلسل کے ساتھ برقرار رہا ہے۔ یہاں تک تو ’اشراق ‘ 1990ء کی تردید میں شائع ہونے والے مضمون میں طلوعِ اسلام کے بعض بے کار دعوؤں کی قلعی کھولی گئی ہے۔ آئندہ قسط میں طلوعِ اسلام کے اس مضمون پر نقد وتبصرہ کیا جائے گا جو مئی 2005ء میں محدث کی تردید میں شائع کیا گیا ہے۔
Flag Counter