اس نے ابوداوٴد (۷۲۲) اور دارقطنی (۱۰۸) میں سماع کی تصریح کررکھی ہے۔ لہٰذا تدلیس کا شبہ زائل ہوجاتا ہے۔ پھر وہ اسی حدیث کے بیان کرنے میں اکیلے نہیں ہیں بلکہ ابن اخی بن شہاب نے ان کی متابعت کررکھی ہے ۔میں کہتا ہوں کہ یہ سند شیخین کی شرط پر صحیح ہے اور ابن اخی زہری کا نام محمدبن عبداللہ بن مسلم ہے۔ (ارواء الغلیل ۳/۱۱۲،۱۱۳) حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ تعالیٰ ابوداود کی روایت کے متعلق فرماتے ہیں: اس کی سند صحیح ہے، امام دارقطنی نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ (ھق ۲/۸۳، سنة ۵۷۱) ’بقیہ‘ صدوق اور مدلس ہے اور اس نے سماع کی تصریح کررکھی ہے اور زبیدی کا نام محمد بن ولید بن عامر ہے جو بالاتفاق ثقہ ہیں اور ابن اخی زہری نے ان کی متابعت کررکھی ہے۔ مسنداحمد (۲/۱۳۳،۱۳۴)، ابن الجارود (۱۷۸) وغیرہ اور اس حدیث کی سند شیخین کی شرط پر صحیح ہے اور امام زہری نے بھی ان دونوں سندوں میں سما ع کی تصریح کررکھی ہے۔ یہ حدیث تکبیراتِ عیدین میں اور سجدۂ تلاوت کے وقت رفع الیدین کی مشروعیت کی دلیل ہے جو رکوع سے قبل ہیں اور اس حدیث سے سلف میں امام ابن منذر اور امام بیہقی وغیرہ نے بھی استدلال کیا ہے اور ان کا استدلال بالکل درست ہے اور اس کی مخالفت پر کوئی نص موجود نہیں ہے۔ آگے موصوف ایک اُصول کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں: والعبرة لعموم اللفظ لا لخصوص السبب یعنی اعتبار عام لفظ کا ہوگا نہ کہ کسی خصوصی سبب کا۔ (ابوداوٴ:۷۲۲) یہ حدیث اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہے، اس میں نما زکے شروع کا رفع الیدین پھر رکوع کو جاتے وقت (جیسا کہ مسنداحمد کی حدیث میں ہے اور رکوع سے اُٹھتے وقت رفع الیدین کا ذکر ہے اور پھر یہ بات ذکر ہے کہ رکوع کے قبل کی تمام تکبیرات کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رفع الیدین فرمایا کرتے تھے، جس سے عیدین کی تکبیرات میں اور سجدۂ تلاوت کے وقت رفع الیدین کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ بعض لوگوں نے اس حدیث کی سند اور متن پر اعتراض کیا ہے، لیکن سند پر جن لوگوں نے اعتراض کیا ہے، ان کا طریقہ کار سلف اور محدثین سے ہٹ کر ہے اور متن پر یہ اعتراض ہے کہ عیدین کی نماز کے لئے الگ اور مستقل دلیل ہونی چاہئے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ |