اسلام کے حق میں ہیں۔ فیصلہ کریں طالبان والا اسلام چاہئے یا ترقی پسند؟ ہمیں عالمی سطح پر دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے۔ علما ہوش مندی سے کام لیں۔ قائداعظم اور علامہ اقبال کا تصور ترقی پسند پاکستان تھا، مذہبی ریاست نہیں۔ نفاذِ اسلام کے لئے لوگوں کے ذہنوں اور دلوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ پوری قوم برداشت والاکلچر چاہتی ہے۔ اسلام میں سب کے حقوق محفوظ ہیں۔ اس کی قدر کوسمجھیں۔“ (کوہاٹ میں خطاب: نوائے وقت 11 جون 2003ء) یہ بیانات ترکی جیسی کسی ریاست کے سربراہ کے نہیں ہیں جس کا آئین سیکولر ہے، یہ ارشاداتِ عالیہ کسی ایسے مسلمان ملک کے صدر کے بھی نہیں ہیں جس کا تعلق بعث پارٹی جیسی ملحدانہ نظریات کی حامل جماعت سے ہو، افسوس اور تعجب تو اس بات پر ہے کہ اسلامی شعائر کی کھلی تضحیک پر مبنی یہ ’جلالی خطابات‘ ایک ایسی مملکت کے سربراہ کی طرف سے دیئے گئے ہیں جس کے آئین کے مطابق اسلام ریاست کا سرکاری مذہبی ہے۔ اسی آئین کا آرٹیکل کہتا ہے کہ یہ مملکت کی پالیسی ہوگی کہ یہاں اسلام کے طرزِ حیات(Islamic way of life) پر عمل پیرا ہونے کے لئے عوام کی حوصلہ افزائی کی جائے گی اور اس کے لئے سازگار فضا قائم کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے۔ بانی پاکستان محمد علی جناح نے بارہا فرمایا کہ قیامِ پاکستان کا مطلب محض ایک خطہ ارضی کا حصول نہیں ہے بلکہ اس کا حقیقی مقصد یہ ہے کہ یہاں مسلمان اسلامی اقدار، اسلامی ثقافت اور اسلام کے شاندار اصولوں پر آزادانہ طور پر عمل کرسکیں۔ داڑھی اور پردہ کو ہمیشہ اسلامی شعائر اور اسلام کی تہذیبی و معاشرتی اقدار کا مظہر سمجھا جاتا رہا ہے مگر آج جنرل پرویزمشرف کی جانب سے ان اسلامی اقدار کے متعلق استہزا اور ناپسندیدگی کا نہایت بے باکانہ انداز میں اظہار کیا جارہا ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ اسلامی طرزِ حیات کو فروغ دینے کے لئے آئینی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے عملی اقدامات اُٹھاتے، اُنہوں نے اپنے بیانات کے ذریعے واضح اشارہ دیا ہے کہ آئین میں جو کچھ درج ہے، وہ اس کے خلاف اقدامات کرنے کی تیاری کرچکے ہیں۔ ان کے بیانات سے یہ استنباط کرنا کوئی دور |