کرنے اور مسئلہ تحریر کرنے، اور اس میں لوگوں کے اختلاف کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا: وأما من قتل الحسين أو أعان على قتله أو رضى بذلك فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين20 ”لیکن جس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا یا ان کے قتل میں معاونت کی یاوہ آپ کے قتل پر خوش ہوا، اس پر اللہ اور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔“ کیا اس کے بعد کسی خطیب، ذاکر یا خود کو عالم کہلانے والے کے لئے ممکن ہے کہ وہ اہل السنہ پر طعن کرے اور کہے کہ وہ ناصبی ہیں ۔ مذکورہ بالا کلام، ائمہ سلف میں سے ایک امام کا ہے۔ میرے بھائیو! ممکن ہے کہ اس مضمون کو پڑھتے ہوئے آپ کے دل میں بہت سے سوالات اُبھرے ہوں ۔ اس بنا پر کہ تاریخی طور پر صفین اور جمل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان لڑائی کا وجود ثابت ہے۔ اور ان میں سے ہر فریق کے ساتھ صحابہ کا ایک گروہ موجود تھا یا ان میں سے عام یا اکثر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور ان کے ساتھیوں میں اہل بیت بھی تھے۔ یہ بحث ایک مستقل رسالے کی محتاج ہے،میری دعا ہے کہ اللھ مجھے اس رسالے کو تالیف کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے تاکہ ایسے تنازعات وغیرہ کی حقیقت بیان ہوسکے۔ میں اپنی ذات اور آپ کو اللہ سبحانہ کا فرمان یاد دلاتا ہوں : ﴿وإنْ طَآئِفَتَانِ مِنَ الْمُوٴمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا فَاِنْ بَغَتْ اِحْدَاهُمَا عَلَى الاُخْرٰى فَقَاتِلُوْا الَّتِىْ تَبْغِىْ حَتّٰى تَفِىْءَ اِلٰى اَمْرِ اللهِ فَاِنْ فَآءَ تْ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوْا إنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ إنَّمَا الْمُوْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ﴾ (الحجرات:9،10) ”اگر موٴمنوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دیاکرو۔ پھر اگر ایک جماعت دوسرے کے خلاف بغاوت کرے تو بغاوت کرنے والی جماعت سے لڑو،یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔ اگر وہ لوٹ آئے تو ان کے درمیان عدل سے صلح کرا دو اور انصاف کرو۔بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔بے شک موٴمن آپس میں بھائی بھائی ہیں “ اس آیت میں اللہ نے ان کی باہمی لڑائی کے باوجود ان کے لئے ایمان کو ثابت کیا ہے۔ یہ آیت اپنے مفہوم میں صریح ہے اور کسی تعلیق اور تفسیر کی محتاج نہیں ہے۔ لہٰذا تمام صحابہ رضی اللہ عنہم موٴمن |