میں ایک گھر سے برتن اٹھائے کھانا لینے گیا تو دیکھا گھر والے آرام سے بیٹھے آگ تاپ رہے ہیں ۔ میرے دل میں یہ خیال آیا کہ میں زمیندار گھرانے کا فرزند ہوں اور ہمارا رقبہ بھی کافی ہے اور یہاں میں لوگوں کے گھروں سے برتن اُٹھائے روٹی لاتا ہوں ، گھر گیا تو والدہ سے کہہ دیا کہ میں اب نہیں جاؤں گا، وہاں تو گھروں سے کھانا لانا پڑتا ہے، والدہ نے ڈانٹتے ہوئے کہا: آٹا گھر سے لے جایا کر اور وہاں اپنی روٹی پکا کر کھا لیا کر مگر خبردار! آئندہ یہ نہ کہنا کہ میں پڑھنے کے لئے نہیں جاؤں گا۔ آخر انہیں والدہ کے حکم پر طلب ِدین کے لئے جانا پڑا۔ والدہ محترمہ انہیں دین ِمتین کی بے لوث خدمت کے لئے تیار کررہی تھیں ۔ ۱۹۴۷ء میں جب ہندوستان کو چھوڑ کر پاکستان آئے تو تنگدستی کا سامنا تھا، لوگ اپنے تمام مال و متاع کو خیرباد کہہ کر یہاں پہنچے تھے۔ میاں چنوں شہر میں جامع مسجد اہلحدیث کے خطیب اور نامور عالم دین مولانا عبدالقادر زیروی رحمۃ اللہ علیہ نے مولانا سے کہا: آپ یہاں ہمارے ہاں آکر تدریس کیا کریں ، آپ کا علم تازہ رہے گا اور علمی سلسلہ بھی منقطع نہیں ہوگا اور آپ کو ماہوار ڈیڑھ سو روپے تنخواہ دی جائے گی۔ آپ اس پر آمادہ ہوگئے، گھر آکر والدہ سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا: یحییٰ! ہم نے آپ کو اس لئے نہیں پڑھایا کہ آپ پیسے لے کر دین کا کام کریں ، آپ پڑھائیں ضرور، لیکن تدریس کے بدلہ میں آپ نے لینا کچھ نہیں ۔ گھر سے کھانا کھاکر جائیں اور دوپہر کا کھانا اپنے ساتھ لے جایا کریں ، اور تنخواہ لینے کا خیال چھوڑ دیں ، چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا اور بغیر کسی معاوضہ کے وہاں تدریس کرتے رہے۔ احفظِ اللّٰه یحَفظک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو جن پندو نصائح سے نوازا تھا ان میں ایک نصیحت یہ تھی: یا غلام! احفظ اللّٰه یحفظک ( ترمذی،مستدرک حاکم:۳/۵۴۱)’’ اے لڑکے! تو اللہ تعالیٰ کے دین کی حفاظت کرے گا تو اللہ تعالیٰ تیرے جان و مال کا محافظ بن جائے گا۔‘‘ ہم دیکھتے ہیں کہ مولانا محمد یحییٰ اِحیاے دین کی تڑپ رکھتے تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے جان و مال کی حفاظت کی۔ جس کی مثال یہ ہے کہ مولانامرحوم کے گاؤں ۱۲۶ کے |