طلبہ میں تقسیم کرتے، بعض اوقات کھانے کی تقسیم کسی لڑکے کے حوالے کردیا کرتے تھے۔ درس گاہ کے بالکل متصل ایک حنفی بزرگ اپنے ایک کمرے میں رہائش پذیر تھے جن کی طبیعت میں کافی سختی اور تلخی پائی جاتی تھی اور وہ بیو ی بچوں کے بغیر اکیلے ہی رہتے تھے۔ کئی دفعہ وہ بزرگ، لڑکوں سے اُلجھ پڑتے تو آپ کبھی جوابی کارروائی نہیں کرتے تھے۔ جب یہ بزرگ اپنے بڑھاپے کی عمر میں بیمار پڑ گئے تو آپ اپنے گھر سے کھانا پکوا کر اسے پیش کرتے، حتیٰ کہ جب وہ خود کھانا کھانے سے عاجز آگئے تو ان کے منہ میں نوالے ڈالنے سے بھی مولانا مرحوم گریز نہ کرتے اور یہ سلسلہ اس بزرگ کی موت تک جاری رہا۔ طلبہ کی خدمت کو وہ اپنے لئے سعادت سمجھتے تھے، مجھے یاد ہے جب راقم الحروف ان کی درسگاہ میں داخل ہوا، اس وقت ذرائع مواصلات ناپید تھے۔ سڑکیں اور راستے کچے تھے، ہم پیدل چل کر اپنے گاؤں سے درس گاہ تک پہنچتے تھے، جب کبھی چھٹیوں کے دنوں میں مدرسہ سے گھر جاتے تو استاذ موصوف اپنی سائیکل پر ہمیں گاؤں کے قریب چھوڑ کر واپس لوٹ جاتے تھے حالانکہ درس گاہ سے ہمارا گاؤں سولہ، سترہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔اللہ تعالیٰ ان اعمالِ صالحہ کو اُستاذِ محترم کے لئے جنت الفردوس میں بلندیٔ درجات کا باعث بنائے۔آمین! والدہ کی تربیت بچوں کی صحیح تربیت میں ماں ، باپ کا کردار بڑا اہم ہوتا ہے، اور اگر وہ بچے کی تربیت کو نظر انداز کردیں تو ایسے بچے معاشرے کے لئے ہی نہیں بلکہ ماں ، باپ کے لئے بھی نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں مولاناموصوف کے والد ِگرامی تو ان کے بچپن میں ہی رحلت فرما گئے تھے، لہٰذا ان کی تربیت والدہ محترمہ نے کی جو آنکھوں سے نابینا تھیں اور حافظ ِقرآن تھیں ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں باطنی بصیرت سے نوازا تھا، انہوں نے اپنے لخت ِجگر کو اسلامی رنگ میں رنگنے کے لئے اپنی تمام تر توانائیوں کو صرف کردیا اور اسے دین اسلام کا مبلغ بنانے کے لئے اپنی صلاحیتوں کو وقف کردیا۔ مولانا موصوف خود بتایا کرتے تھے کہ والدہ نے مجھے تحصیل علم کی غرض سے ایک درس گاہ میں بھیجا، وہاں گھروں سے خود جاکر کھانا لانا پڑتا تھا۔ سردی کے موسم میں |