Maktaba Wahhabi

48 - 64
دلائل انسان میں اس قدر اُجالا کردیں کہ وہ تشکیک اور تذبذب کی وادیوں میں کبھی بھٹکتا نہ پھرے ۔ ارضِ فلسطین پر یہود کا حق؟ اشراق کے اکتوبر ۲۰۰۳ء کے شمارے میں اسی مصنف کے قلم سے ایک اور مضمون ’ارضِ فلسطین پریہود کا حق‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ پاکستان جیسی نظریاتی ریاست میں اس طرح کے مضامین (اور وہ بھی ایک مذہبی رسالہ میں ) کی اشاعت جسارت آمیز ہے، اس مضمون میں بھی مصنف نے اُمت مسلمہ کے موقف کو ناانصافی پر مبنی اور غیر اخلاقی رویہ اختیار کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ مصنف سوال کرتے ہیں : ’’صحف ِآسمانی ارضِ فلسطین کو خدا کی طرف سے یہود کوعطا کردہ میراث قرار دیتے ہیں ، جبکہ ہمارے اہل علم ان کو اس سرزمین میں پردیسی اور اجنبی کے لئے اور اس میں ان کے قیام کو صدیوں اور سالوں کے پیمانوں سے ناپ کر اس حق کو خرافات قرار دیتے ہیں ۔‘‘ (ص۵۹) نجانے وہ کن صحف ِآسمانی کی بات کرتے ہیں ۔ اگر اس سے ان کی مراد وہ صحائف ہیں جو یہودیوں کی ملکیت ہیں تو قرآنِ مجید ان کو محرف قرار دے چکا ہے۔ اگر بالفرض وہ محرف نہ بھی ہوں تب بھی قرآنِ مجید کے آنے کے بعد ان کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔یہ حیرت آمیز سوال کرنے سے پیشتر انہیں غوروفکر کرنا چاہئے تھا کہ آخر جس خدا نے یہود کو وہ میراث عطا کی تھی، اس نے انہیں وہاں سے ذلت ونکبت سے دوچار کرکے نکالا کیوں تھا۔ یہود کا یوں ذلیل و خوار ہوکر نکلنا ہی یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ میراث عارضی تھی اور اس پر ہمیشہ کے لئے ’خدا کی عطا کردہ‘ کا ٹھپہ نہیں لگا ہوا تھا۔ جب تاریخی اعتبار سے یہ ثابت شدہ ہے کہ یہودی فلسطین پر ۷۰ سال سے زیادہ کبھی مسلسل حکمران نہیں رہے۔ فلسطین میں عربوں کا وجود اسرائیلیوں سے ۲۶۰۰ سال مقدم ہے۔ عرب دنیا کے نامور سکالر علامہ یوسف قرضاوی کا یہ بیان تسلیم کرنے میں آخر کون سی علمی رکاوٹ حائل ہے : ’’اگر ان تمام سالوں کو جمع کیا جائے جو یہودیوں نے حملے کرتے اور تباہی پھیلاتے ہوئے فلسطین میں گزارے تو اتنی مدت بھی نہیں بنے گی جتنی انگریز نے ہندوستان میں یا ولندیزیوں نے انڈونیشیا میں گزاری۔ اگر اتنی مدت گزارنے پر کسی کو کسی سرزمین پر تاریخی حق حاصل ہوجاتا ہے تو انگریزوں اور ولندیزیوں کو بھی اس قسم کا مطالبہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ اور اگر غربت کی حالت میں ایک طویل عرصہ کسی علاقہ میں گزارنے سے اس زمین پر ملکیت کا حق
Flag Counter