Maktaba Wahhabi

47 - 64
حرام (کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) تک لے جایا گیا اور مسجد اقصیٰ میں تمام انبیا کی صف میں آپ کو امامت پر مامور کیا گیا تاکہ آج اس مقدس دربار میں اس کا اعلان عام ہوجائے کہ دونوں قبلوں کی تولیت سرکارِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوئی ہے۔‘‘ (سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم:۳/۲۵۲،۲۵۳) پھر آپ تحویل قبلہ کو یہود کے حق تولیت کی معزولی کا حکم نامہ قرا ر دیتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’بیت المقدس اسلام کا دوسرا قبلہ ہے اور اس کی تولیت اُمت ِمحمدیہ کا حق تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اس تولیت کی بشارت دی تھی اور فرما دیا تھا کہ میری موت کے بعد یہ واقعہ پیش آئے گا۔‘‘ (سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم :۳/۳۸۵ ) اور مولانا امین احسن اصلاحی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’واقعہ معراج کی طرف اشارہ جس میں حقیقت … کہ اب مسجدحرام اور مسجد اقصیٰ دونوں گھروں کی امانت خائنوں اور بدعہدوں سے چھین کر نبی اُمی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ کی گئی۔ اب یہی ان مقدس گھروں اور ان کے انوار و برکات کے وارث اور محافظ و امین ہوں گے اور ان کے قابضین… مشرکین قریش و یہود… عنقریب ان گھروں کی تولیت سے بے دخل کردیئے جائیں گے۔‘‘ (تدبر قرآن:۳/۷۱۴) یادش بخیر مولانا اصلاحی صاحب اشراقیوں کے امامِ ثانی مانے جاتے ہیں ۔ امامِ ثالث، اپنی تحریروں میں انہیں ’الاستاذ‘ کا درجہ دیتے ہیں ۔ مگر اشراق کے مضمون نگار واقعہ معراج کی روشنی میں حق تولیت کے متعلق مولانااصلاحی صاحب کی ’تاویل بشارت‘ کوتسلیم کرتے ہیں نہ سید سلیمان ندوی صاحب کی مؤثر وضاحت ان کے نزدیک قابل اعتنا ہے۔ ان اقتباسات کو درج کرنے کے بعد چند نکتہ آرائیاں کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ان دلائل سے واضح ہے کہ ہمارے اہل علم کی ایجاد کردہ واقعہ اسراء کی یہ تازہ تعبیر علمی لحاظ سے بالکل بے بنیاد ہے۔‘‘ اس ضمن میں مسلمان علما چند دیگر دلائل بھی دیتے ہیں مثلاً ’فتح بیت المقدس کی بشارت‘ اور نصاریٰ کی کتابوں میں پیش گوئیاں جس کی رو سے نصاریٰ بھی بیت المقدس کو اسلام کا حق سمجھے ہوئے تھے (بقول مولانا قاری محمد طیب، مہتمم دارالعلوم دیوبند) مگر مضمون کی طوالت کے خوف سے ان سے صرفِ نظر کرتے ہیں ۔ قرآن و سنت کے یہی وہ حوالہ جات ہیں جس کو بنیاد بناتے ہوئے ملت ِاسلامیہ نے مسجد اقصیٰ کی تولیت کے متعلق اپنا موقف قائم کیا ہے۔ اگر قلب و نظر میں اسلامی حمیت کا چراغ روشن ہو، تو یہ
Flag Counter