Maktaba Wahhabi

45 - 64
’’مسجد اقصیٰ پر مسلمان نہ بلا شرکت ِغیرے تصرف کااستحقاق رکھتے ہیں اورنہ یکطرفہ طور پراس پر اسلامی شریعت کے احکام نافذ کرنے کے مجاز ہیں ۔‘‘ قارئین کرام! یہاں ’ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ‘ والی مثال صادق آتی ہے۔ مسجد میں داخلے کی اجازت سے موصوف یہودیوں کے حق تولیت کو ثابت کرنے کی سعی فرماتے ہیں ۔ ہم ان سے سوال کرتے ہیں کہ اگر اعتقادی نجاست غیر مسلموں کے مساجد کے معاملے میں حائل نہیں ہے اور اس بنا پر انہیں مسجد اقصیٰ کی تولیت کی حق بھی مل جاتا ہے تو پھرمسجد اقصیٰ تک ہی کیوں موقوف رکھا جائے، باقی تمام مساجد میں بھی جہاں انہیں داخلہ کا جواز ملتا ہے، وہ حق تولیت کا دعویٰ کرسکتے ہیں ۔ حیرت ہے ان اشراقیوں پر جن کے تمام دین کا انحصار ان کی عقل پرہے۔ کہاں مسجد میں غیرمسلموں کے دخول اور عدمِ دخول کا معاملہ اور کہاں حق تولیت کی اُصولی بحث۔ مصنف نے جس تنکے کے سہارے اپنے استدلال کی عمارت اٹھائی ہے، وہ یہ ہے کہ بعض احناف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مشرکین عرب کی مسجد حرام میں داخلہ کی ممانعت کی وجہ ان کو اُمورِ تصرف و تولیت سے بے دخل کردینا سمجھتے تھے۔ یقینا یہ ایک وجہ بھی ہے، مگر مشرکوں کو داخلہ کی اجازت نہ دینے کی اور بھی تو کئی وجوہات ہیں ۔ پھر مصنف خود تسلیم کرتے ہیں کہ ان احناف کی رائے جمہور فقہا کی رائے کے برعکس ہے۔ (اشراق: اگست ۲۰۰۳ء ، ۴۷) مسلمانوں کے حق تولیت کی تائید میں دلائل راقم الحروف کے نزدیک مسجداقصیٰ پر مسلمانوں کے حق تولیت کے حق میں سب سے اہم شرعی دلیل سورۃ توبہ اور سورۃ الانفال کی وہ آیات ہیں جن کا تذکرہ اوپر ہوچکا ہے۔ سورۃ انفال میں مشرکین مکہ کے متعلق فرمایا کہ ’’وہ اس (مسجد حرام) پر تولیت کا حق بھی نہیں رکھتے، اس کی تولیت کا حق تو صرف پرہیزگاروں کا ہے۔‘‘ (آیت:۳۴) پھر سورۃ توبہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ ’’مشرکین کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے مجاور و خادم بنیں ، درآں حالے کہ اپنے اوپر وہ خود کفر کی شہادت دے رہے ہیں ۔ ان کے تو سارے اعمال ضائع ہوگئے اور جہنم میں انہیں ہمیشہ رہنا ہے۔ اللہ کی مسجدوں کے آبادکار (مجاور و خادم) تو وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو اللہ اور روز آخر کو مانیں اور نماز قائم کریں ، زکوٰۃ دیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں ، انہی سے یہ توقع ہے کہ وہ سیدھی راہ چلیں گے۔‘‘ (آیات :۱۷، ۱۸)
Flag Counter