Maktaba Wahhabi

44 - 64
سے جہاں ایک چیز ثابت ہوسکتی وہاں دوسری بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ مصنف نے عدمِ تعرض سے یہودیوں کے حق تولیت کی تنسیخ کی نفی ثابت کرنی چاہی ہے ہم کہتے ہیں کہ بعض اوقات ایک مسلمہ اور ثابت شدہ، غیر متنازع بات کے متعلق بھی عدمِ تعرض سے کام لیاجاتا ہے۔ کسی چیز سے تعرض عام طور پر تب کیاجاتا ہے جب اس پر آرا مختلف پائی جائیں ۔ چونکہ مسجد اقصیٰ کی تولیت کا مسئلہ فقہا کے نزدیک متنازعہ نہ تھا، اس لئے ان کے ہاں اس کے عدمِ تعرض کا قرینہ ملتا ہے۔ یہ مسئلہ اس وقت ’نہایت اہم‘ نہیں تھا جتنا کہ یہودی لٹریچر پر دما غ سوزی کرنے کے بعد ہمارے ممدوح محقق کو اب محسوس ہوتا ہے۔ مصنف نے یہاں بہت طویل فقہی موشگافیاں بھی فرمائی ہیں ۔ ان دلائل میں غامدی صاحب کا مخصوص ’فلسفہ اتمامِ حجت‘ بھی جلوہ فرما ہے۔ مصنف کو فقہ اسلامی کے وسیع ذخیرے میں یہودیوں کے حق تولیت کی تائید میں جب کچھ نہ ملا تو انہوں نے اہل کتاب کے مسجد میں دخول وعدم دخول اور اعتقادی نجاست کی بحث کھڑی کردی جس کا مسئلہ مذکور سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔ مصنف سورۃ البقرۃ کی اس آیت ﴿اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلاَ یَقْرَبُوْا الْمَسْجِدَ الْحَرَام بَعْدَ عَامِھِمْ ھٰذَا﴾ کے متعلق بلا ضرورت مختلف فقہی مکاتب ِفکر کی آرا پیش کرکے غیر منطقی انداز میں یہودیوں کے حق تولیت کی منسوخی کی نفی کااعلان کردیتے ہیں ۔ مساجد میں مشرکوں کے داخلہ کی علت، وقت اور محل کے لحاظ سے کیاہے؟ امام شافعی اس پابندی کو علت اور وقت کے لحاظ سے تو عام مانتے ہیں لیکن محل کے لحاظ سے خاص۔اعتقادی نجاست کی علت چونکہ دوسرے غیر مسلموں میں بھی پائی جاتی ہے، اس لئے کوئی بھی غیرمسلم چاہے وہ مشرک ہو یا اہل کتاب، مسجد ِحرام میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اما م مالک اور امام احمد کی رائے میں یہ حکم علت، وقت اور محل، ہر لحاظ سے عام ہے یعنی ان کے نزدیک تمام غیر مسلموں کا داخلہ مسجد ِحرام سمیت تمام مساجد میں ہمیشہ کے لئے ممنوع ہے۔ احناف کے نزدیک مسجد ِحرام میں داخلے کی یہ پابندی نہ تمام غیر مسلموں کے لئے ہے اور نہ ہر زمانے کے لئے۔ اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ احناف کے نزدیک اس حکم کی علت مفرد نہیں ، بلکہ مرکب ہے۔ احناف تمام مساجد میں غیر مسلموں کے دخول کے جواز کے قائل ہیں ۔ مصنف کے علمی مباحث کا ملخص یہی ہے۔ مصنف احناف کی رائے سے استشہاد کرتے ہوئے نتیجہ نکالتے ہیں کہ
Flag Counter