استدلال‘ بھی ملاحظہ فرمائیے، فرماتے ہیں : ’’اس حکم کے نازل ہونے کے بعد ۹ ہجری میں حج کے موقع پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یوم النحر میں سورۃ براء ت کی ابتدائی چار آیات پڑھ کرسنائیں جن میں مشرکین پر اتمامِ حجت اور ان سے اللہ ورسول کی براء ت کا اعلان ہے، اور پھر اعلان کردیا کہ آج کے بعد نہ کوئی مشرک بیت اللہ میں داخل ہوسکے گا … ۹ ہجری میں جب سورۃ براء ۃ میں مشرکین پر اتمامِ حجت اور ان سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی براء ت کا اعلان کیا گیا تو اس کے ساتھ قرآن مجید میں باقاعدہ یہ حکم نازل ہوا کہ اب بیت اللہ پرمشرکین کسی قسم کاکوئی حق نہیں رکھتے۔ لہٰذا آج کے بعد ان کو مسجد ِحرام کے قریب نہ آنے دیا جائے۔‘‘ اس آیت کے نقل فرمانے کے بعد لکھتے ہیں : ’’اس اُصول کو سامنے رکھیں تو مذکورہ استدلال کے حوالے سے سب سے پہلا یہ سوال سامنے آتا ہے کہ کیا قرآن و سنت میں کوئی ایسی نص موجود ہے جس میں یہود کے مذکورہ مذہبی و اخلاقی جرائم کی بنیاد پر ان کے حق تولیت کی تنسیخ کا فیصلہ کیا گیا ہو؟ کیا جس طرح مسجد ِحرام پر مشرکین مکہ کے حق تولیت کی تنسیخ کا دو ٹوک اعلان قرآن و سنت میں کیا گیا ہے، اس طرح مسجد ِاقصیٰ اور یہود کے بارے میں بھی کوئی صاف اور صریح نص وارد ہوئی ہے؟ ہمارے علم کی حد تک اس کا جواب نفی میں ہے اور قرآن و سنت کی تصریحات، سیرۃ ِنبوی، تاریخ اسلام اور فقہا کی آرا میں متعدد قرائن اس کے خلاف ہیں ۔‘‘ (اشراق: اگست ۲۰۰۳ء) مصنف کے ان مباحث کے متعلق ہماراتبصرہ یہ ہے کہ اس طائفہ نو اعتزال نے اپنی محققانہ خیال آرائیوں کیلئے قرآن و سنت کو بازیچہ اطفال بنا رکھا ہے، جب چاہتے ہیں ان کو اپنے عقل پرستانہ استدلال کا تختۂ مشق بنا دیتے ہیں ۔ اس ضمن میں چندباتیں قابل غور ہیں : 1. سورۃ براء ت کی مندرجہ بالا آیات کا تولیت کے مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں ، ان آیات میں مشرکوں کو بیت اللہ میں داخل ہونے سے روکا گیا ہے، تو پھر فاضل مصنف نے اس سے مسجد ِاقصیٰ کی تولیت کے مسئلہ کے لئے اُصول کہاں سے وضع کرلیا؟ 2. ۹ ہجری میں مشرکین سے صرف براء ت کاعلان ہوا، کعبۃ اللہ کی تولیت کامسئلہ تو پہلے ہی طے کردیا گیا تھا، یہی و جہ ہے کہ اس میں تولیت کاذکر نہیں ہے۔ تو پھر اس سے مصنف کے استدلال کاجواز آخر کیا رہ جاتا ہے؟ 3. کعبۃ اللہ کی تولیت کے متعلق حکم ۲ ہجری میں ہی نازل ہوا، اس کی عملی صورت ۸ ہجری میں فتح مکہ کے موقع پر وقوع پذیر ہوگئی۔ |