4. مصنف اگر معتزلائی روشن خیالی کے زیر اثر نہ ہوتے تو یہ سوال کبھی نہ کرتے کہ’’کیا یہود کے حق تولیت کی تنسیخ کے لئے قرآن و سنت میں کوئی نص موجود ہے۔‘‘ مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کے متعلق ایک طرح کے الفاظ کی توقع رکھنا عجیب معلوم ہوتا ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مسجداقصیٰ پر مسلمانوں کو فتح حاصل نہیں ہوئی، تو اس کے متعلق احکامات قرآن و سنت میں کیسے وارد ہوجاتے؟ 5. مسجد ِ حرام کے متعلق احکامات کے وارد ہونے کے بعد ’مسجد اقصیٰ‘ کے متعلق الگ سے نص کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی۔ مذکورہ آیات میں بہت واضح طور پر ارشاد ہے کہ’’ مسجد ِحرام کی تولیت کاحق پرہیزگاروں کو ہے۔ مشرکوں کو حق نہیں ہے کہ اپنے کفر کی شہادت خود دیتے ہوئے وہ اللہ کی مساجد کو آباد کریں ۔‘‘ مصنف نے غور نہیں فرمایا ورنہ انہیں یہاں بھی نص قرآنی نظر آہی جاتی۔ سورۃ برأت کی آیات میں الفاظ ’مساجد اللّٰه‘ ہیں ، یعنی جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ اگر یہ حکم صرف مسجد ِحرام تک ہی محدود ہوتا، تو جمع کا صیغہ لانے کی کیا ضرورت تھی۔کیا ’اللہ کی مسجدوں ‘ میں مسجد ِاقصیٰ شامل نہیں ہے۔ اگر ہے تو پھر اس پر اس آیت کا اطلاق کیوں نہیں ہوتا۔ اس آیت میں اللہ کی مساجد کی تولیت کا حق ’ہدایت یافتہ‘ گروہ کو دیا گیا ہے۔ قرآن مجید نے واضح طور پر مسلمانوں کو ’ہدایت یافتہ‘ گروہ اور یہودیوں کو گمراہ اور مغضوب کہا ہے۔ اور ہدایت سے مراد ’الکتاب‘ ہے۔ گویا الکتاب پر ایمان رکھنے والا گروہ ہی ہدایت یافتہ ہے۔ تو پھر اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کی مساجد بشمول مسجداقصیٰ پر تولیت کا حق صرف اور صرف مسلمانوں کو ہے۔ 6. اہل اشراق کی یہ عادت بن چکی ہے کہ جو بات ان کی عقل میں نہ آئے اس کے لئے فوراً قرآن و سنت سے ’صریح نص‘ پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔اس سے یہ تاثر دینا مقصود ہوتا ہے کہ ان کا موقف تو عین قرآنی تعلیمات کے مطابق ہے۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ آپ تو مسجداقصیٰ کی تولیت کی منسوخی کے لئے قرآن مجید سے ’صریح نص‘ تلاش کرتے پھر رہے ہیں ، ہم آپ سے کہتے ہیں کہ آپ قرآن مجید سے صریح نص ڈھونڈ کر دکھا دیں جس میں پانچ نمازوں کا حکم اور ان کے اوقات مقرر کئے گئے ہوں ، |