قانونی اور اخلاقی پہلو ناقابل ِانفکاک ہیں ، اگر اخلاقی پہلو کو نظر انداز کردیا جائے، توقانونی پہلو اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ قانونی اور اخلاقی سطح کی ثنویت کا تصور بھی اس محقق کے اختراعی ذہن کا نتیجہ ہے، ورنہ یہ جاننا مشکل نہیں ہے کہ مسجد ِاقصیٰ پر مسلمانوں کے دعویٰ کی حقیقی بنیاد ہی اخلاقی ہے۔ مصنف یہ بات بھی فراموش کرگئے ہیں کہ قانون قومی ہو یا بین الاقوامی، اس کا اصل ماخذ (Source) اور سرچشمہ اخلاقیات (Ethics) ہی ہوتا ہے۔ اخلاقیات بھی دو طرح کی ہیں ، سیکولر اخلاقیات اور مذہبی اخلاقیات۔ سیکولر اخلاقیات کی بنیاد عام طور پر ’عرف‘ رواج، رسومات و تاریخی روایات اور ثقافتی تاریخ ہوتی ہیں ۔ مگر مذہبی اخلاقیات اپنی تمام تر قوت الہامی تعلیمات اور وحی سے اخذ کرتی ہے۔ رومی قانون، یونانی قانون، اینگلو سیکسن لائ، فرانسیسی قانون، چینی قانون، غرض آپ دنیا کے جس قانونی ڈھانچے کا تجزیہ کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان کی بنیاد میں یہی عناصر کار فرما ہیں ۔ قوموں کے آپس کے تعلقات کو منضبط (Govern)کرنے والا بین الاقوامی قانون بھی اس اُصول سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ مسجد ِاقصیٰ کے متعلق ’قابل لحاظ پہلو‘ اگر مصنف کے نزدیک اخلاقی ہی ہے تو انہیں بتانا چاہئے تھا کہ بین الاقوامی سطح پر آخر مسلمانوں کے حق ِتولیت کو کیوں تسلیم کیا گیا ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ سیکولر اخلاقیات اور مذہبی اخلاقیات، دونوں کی رو سے مسجد ِاقصیٰ کی تولیت کا حق بجا طور پر مسلمانوں کو ملنا چاہئے۔ سیکولر اخلاقیات کی رو سے اس لئے کہ مسلمانوں نے یہودیوں کی کسی عبادت گاہ کو گرا کر کوئی نئی عمارت قائم نہ کی، وہ ان کی اپنی تعمیر کردہ ہے۔لہٰذا اپنی تعمیر کردہ عمارت کیلئے وہ یہودیوں کا حق تولیت کیونکر تسلیم کرلیں ۔ ثانیاً یہ کہ گذشتہ تیرہ صدیوں کا ان کا تولیتی تسلسل وہ اخلاقی بنیادیں فراہم کرتا ہے جس کو بین الاقوامی برادری نے عادلانہ طورپر تسلیم کرلیا ہے، لہٰذا مصنف کی رائے کا ہمارے نزدیک پانی کے تالاب میں ایک قطرے جتنا وزن بھی نہیں !! مذہبی اخلاقیات کی رو سے بھی مسلمانوں کو اس کا حق ملنا چاہئے۔ اس بارے میں علما کی طرف سے واقعہ اِسراء کے حوالہ سے جو دلائل دیئے گئے ہیں ، ہم اس کو وزنی اور وقیع خیال کرتے ہیں ۔جس مقام سے مسلمانوں کے پیغمبر نے معراج کا سفر اختیار کیا، اور وہاں پرانبیا نے ان کی امامت میں نماز ادا کی، اور جسے مسلمانوں کے قبلۂ اوّل ہونے کا شرف بھی حاصل ہے اور جس کا ذکر باقاعدہ قرآن مجید میں کیا گیا ہے، آخر اس سے زیادہ مذہبی اخلاقیات کی |