اُمت ِمسلمہ اور صہیونیت محمد عطاء اللہ صدیقی یہودیوں کے حق ِتولیت کے ’اِشراقی‘ علمبردار معاصر ’اشراق‘ کے نوجوان سکالرز کی تحقیق کاری کا ناقدانہ جائزہ گروہِ ملاحدہ اور سیکولر متفرنجین کی دل آزار شقاوتِ قلبی پر نوحہ گری سے قلم کو ابھی فرصت میسر نہیں آتی کہ متجددین ِشریعت میں سے کسی کی ایسی تحریر نگاہ سے گزرتی ہے جو قلب کو چیرتی ہوئی نکل جاتی ہے۔ ہمارے ہاں شریعت کو ’روحِ عصر‘ کے مطابق ڈھالنے کا ’عظیم مشن‘ لے کر عقل پرست متجددین اور اشراقی محققین کا ایک گروہ سامنے آیا ہے جس کے نزدیک تجدید ِدین کا مفہوم بس اتنا ہی ہے کہ اُمت ِمسلمہ کے جمہور فقہا نے جس بات پر اتفاقِ رائے کا اظہار کیا ہے، اس کو عقل اور روحِ عصر سے متصادم قرار دے کر اپنی ’محققانہ علمیت‘ کا ڈھنڈورا پیٹا جائے۔ حیرت یہ ہے کہ یہی گروہ سنت و احادیث کے قابل اعتبار ہونے کے لئے اُمت ِمسلمہ کی تاریخ سے ’تواتر ِعملی‘ کا ثبوت بھی مانگتا ہے۔ یہ گروہ جو اپنے حق میں ’اعتزال‘ کو گالی نہیں بلکہ تحسین کا نام دیتا ہے، اپنے تفردات اور عقلی تعبیرات میں اس قدر آگے نکل گیا ہے کہ معتزلہ بھی انہیں اپنے ساتھ ملانے میں شاید عار محسوس کرتے، کیونکہ وہ بھی اُمت ِمسلمہ کی دل آزاری میں اتنے بے باک واقع نہیں ہوئے تھے…!! افغانستان کے نہتے بے گناہ مسلمانوں پر دورِحاضر کی بدترین بمباری ہورہی تھی، مسلمانوں کے جگر چھلنی کئے جارہے تھے، ان کی آبادیاں ڈیزی کٹر بموں سے اُڑائی جارہی تھیں ، عین ان قیامت خیز ایام میں اس گروہ کے امام صاحب کا اخبار میں بیان چھپتا ہے: ’’افغانستان پرامریکی بمباری جائز ہے۔‘‘ (روزنامہ پاکستان، سنڈے میگزین ۲۸/اکتوبر ۲۰۰۱ء) اور پھر ارشاد ہوتا ہے: ’’کشمیر کا جہاد جائز نہیں ہے۔‘‘ بلکہ یہاں تک کہہ دیتے ہیں : ’’ جہادِ کشمیر دہشت گردی ہے۔‘‘ یہ تو محض ایک مثال ہے، ورنہ ملت ِاسلامیہ کو گھائل کر دینے |