والے ان کے بیانات کی فہرست بہت طویل ہے۔ مولانا نعیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ جو مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے، اس گروہ کے امام کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’ ایک تو ان میں سے بے شمار حلقہ ہائے فکر ونظر اسلامی میں سے ذرا اُبھر کر کچھ نئی راہیں نکالنے کا معاملہ ہے ، وہ ان کی خاص ضرورت ہے۔ وہ تمام نصوص اور معاملات او رنقطہ ہائے نظر سے خورد بینی نگاہ کے ساتھ ایسے پہلو یا گوشے نکالتے ہیں کہ ایک متوسط قاری یہ تاثر لے سکتا ہے کہ وقت کا کوئی بڑا مجتہد پیدا ہوا ہے جو عام سی باتوں میں ایسے ایسے لطیف نکتے نکالتا ہے کہ سر پھر جاتا ہے۔مگر اہل علم وتحقیق اگر بغور تجزیہ کریں تو بس ایک طرح کا ہپناٹزم ہے۔ اسی کو آپ (مولانا زاہد الراشدی) نے تفرد کہا ہے اور اس تفرد کے بغیر کوئی نو خیر آدمی جگہ بنا ہی نہیں سکتا۔ زور ہمیشہ کسی مروّج ومعروف مسئلے میں اختلافی دراڑ پیدا کرنے پر ہے۔ مشکل یہ ہے کہ اس تفرد کو کسی طرف سے مسلمہ علمی شخصیت یا ادارے کی سند ملنی چاہیے۔ اس سند کے لیے وہ فوراً اصلاحی صاحب کی طرف لپکتے ہیں ۔ایک متعین مرکز استفادہ اور چند مسائل تفرد!! یہ وہ سرمایہ ہے جس سے ایک نئے علم ومرکز کا قیام عمل میں آتا ہے۔ یہ حضرات بغداد والے ان علاماؤں کی روش پر بحثوں میں پڑے وقت کی آفات سے ایسے غافل ہیں کہ ان کو پتہ ہی نہیں کہ تاتاری مسلمانوں او ران کی حکومتوں کوبرباد کرتے ہوئے بغداد کی طرف آر ہے ہیں ۔ بجائے اس کے کہ وہ کوئی تدبیر آنے والی تباہی کے تدارک کے لیے کرتے ، انہیں اپنی بحثوں سے فرصت نہ تھی، یہاں تک کہ سب صفایا ہو گیا ۔ نہ عَلَم رہا باقی اور نہ علم۔‘‘ (مولانا زاہد الراشدی کے نام خط: ماہنامہ ’الشریعہ‘،اگست ۲۰۰۱ء) راقم نے نعیم صدیقی صاحب کی رائے یہاں اس لیے نقل کی ہے کہ قارئین یہ جان سکیں کہ اس گروہ کے متعلق اہل علم کیا ’حسن ظن‘ رکھتے ہیں ۔ نعیم صدیقی صاحب نے موصوف کے مجتہدانہ تاثر پیدا کرنے کی جو بات کی ہے، وہ بالکل درست ہے، بہت سے لوگ اس تاثر کی گرفت میں ہیں ۔صحافیوں کا ایک گروہ جو روایتی علما سے تو بیزار ہے مگر اسلام پسندی کو اب تک مسلک کے طور پر اپنائے ہوئے ہے، ان سے اِرادت مندی کا رشتہ رکھتا ہے۔ایک معروف صحافی تو پاکستان میں جدید اسلامی ریاست کے |