تصور کو فروغ دینے میں انہیں ’آخری اُمید‘ سمجھتے ہیں ۔روزنامہ جنگ کے ایک کالم نگار نے توانہیں ’فقیہ العصر‘ کا لقب دے رکھا ہے اور دوسروں سے یہ منوانے کے لیے تواتر سے قلمی جدوجہدفرماتے رہتے ہیں ۔ ہمارے نزدیک ان کا پاکستان کے دینی حلقوں میں اصل مقام ایک طائفہ نو اعتزال کے گرو(The Leader of Neo-Mutazalites) کا ہی ہے۔ حریت ِفکر وضمیر کے پردے میں اس منحرف گروہ نے عمل وخیال کی ایسی ایسی نئی طرحیں ایجاد کی ہیں کہ مذہبی معتقدات اور اسلامی تاریخ کے مستند واقعات کو ریب وشک میں ڈال دیا ہے۔ تحقیق کے نام پر یہ ایسے ایسے استنتاج واستنباط پیش کرتے ہیں کہ واقعی ایک عام شخص چکرا کررہ جاتا ہے۔ان کے ’عالمانہ اُلجھاؤ‘ اور ’محققانہ نکتہ رسی‘ سے پاکستان کی دینی اساس کی بساط کو خطرات در پیش ہیں ۔ آج ہم ان عقل پرست متکلمین کے جس ’وصف ِخصوصی‘ کا ذکر کرنا چاہتے ہیں ، وہ یہ ہے کہ ان حضرات کا شرعی علوم سے عاقلانہ شغف یہودیوں کے متعلق ان کے قلوب میں نرم گوشہ پیدا کرنے میں کسی قسم کی رکاوٹ کا باعث نہیں بنتا۔ ایک طویل عرصہ سے اس گروہ کے یہودی علماء (رِبیوں ) سے روابط اور ان سے انٹر نیٹ پر علمی مکاتبت کی خبریں آرہی تھیں ، کبھی کبھاریہود سے اظہارِ ہمدردی پر مبنی بیانات بھی سامنے آتے رہے۔ بیت المقدس پر یہودیوں کے استحقاق کی طرف ’اشارات‘ بھی ان کی تحریروں میں بارہا محسوس کئے گئے، مگر حال ہی میں عقل پرست متجددین کا یہ ملت فروش بیزار گروہ مسجد ِاقصیٰ پر یہودیوں کے حق ِتولیت کا علمبردار بن کر کچھ اس انداز میں آگے بڑھا ہے کہ اگر اس کی پیش قدمی نہ روکی گئی تواتحادِ ملت میں شدید رخنہ اندازی اور فکری گمراہی کے نئے دَر کھلنے کا امکان ہے۔ اس گروہ کے محققین ملت ِاسلامیہ کے عادلانہ موقف کی تائید کی بجائے یہود کے ماخذ و مصادر سے اخذ شدہ معلومات پر اپنے ’نتائج ِعلمی‘ مرتب کرنے کا گہرا میلان رکھتے ہیں !! ماہنامہ ’اشراق‘ مذکورہ گروہ کا ’آرگن‘ ہے، اس کی جولائی اور اگست ۲۰۰۳ء کی اشاعت میں ’مسجد ِاقصیٰ، یہود اور اُمت ِمسلمہ‘ کے عنوان سے ایک نوجوان محقق کا تحریر کردہ ایک ’علمی‘ مقالہ شائع ہوا ہے جس میں فاضل مصنف نے سارا ’جوشِ تحقیق‘ اور ’زورِ علم‘ محض یہ ثابت |