Maktaba Wahhabi

45 - 64
کرنے پرصرف کیا ہے کہ مسجد ِاقصیٰ پر یہودیوں کے تولیت کے حق کو تسلیم نہ کرکے اُمت ِمسلمہ گذشتہ چودہ سو برسوں سے عدل و انصاف کا خون کررہی ہے۔ نوخیز محقق کے مقالہ کا بیشتر حصہ یہودی علما کے نقش ہائے عبرانی سے مزین ہے، کہیں کہیں قرآن و حدیث کے حوالہ جات بھی دئیے گئے ہیں ، مگر اسرائیلیات سے اس قدر غیر معمولی شغف کے باوجود بھی موصوف کو دعویٰ یہ ہے کہ اس معاملے میں اسلامی شریعت کا صحیح منشا اگر کوئی سمجھنے کے قابل ہوا ہے، تو اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں لکھنے والا بس یہی محقق ہے…!! بساطِ تحقیق پر جلوہ گر ہونے والے اس نووارد اِشراقی محقق کے ’علمی کارنامے‘ ہماری نگاہوں سے اوجھل نہیں ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پچاس صفحات پر پھیلے ہوئے مضمون کا مواد اس نوجوان مصنف کی بلا شرکت ِغیرے تحقیقی کاوش کانتیجہ نہیں ہے، اس میں اس طائفہ نواعتزال کے اجتماعی خون پسینے، جو وہ اس راہ ِ تحقیق میں مدت سے بہا رہا ہے،کو بھی خاصا دخل ہے۔ اشراقیت پسندوں کا یہ گروہ اپنی ذہنی اُپج، فلسفیانہ شغف اور تقابل ادیان کی طرف گہرے میلان کی وجہ سے مسلمان علما سے رابطوں کو اپنے ’عالمانہ پندار‘ سے کم تر خیال کرتا ہے، البتہ یہودی ربیوں سے ’علمی مکاتبت‘ پر ناز کا اظہار کرتے کبھی نہیں تھکتا…!! پاکستان میں محض دیسی یہودیوں (یعنی قادیانی) کے متعلق عام طور پر لوگ زیادہ تر جانتے ہیں کہ انہوں نے اسرائیل میں باقاعدہ تبلیغی مشن بٹھا رکھے ہیں ۔ مگر ’اشراقیہ ‘کے متعلق ’اشرافیہ‘ (Elites)تک کو بھی علم نہیں ہے کہ ان کے یہود کے ساتھ کس حد تک گہرے ’علمی روابط‘ ہیں ۔ جس نے ان ’روابط‘ کی ہلکی سی جھلک دیکھنی ہو، وہ ہمارے ممدوح محقق کا زیر تبصرہ مضمون دیکھ لے۔ ایسا مضمون اس طرح کے ’علمی روابط‘ کے بغیر ’جوڑنا‘ بے حد مشکل ہے۔ اہل اشراق کے گرو(جو اپنے حلقہ میں بجا طور پر ’فقیہ العصر‘ کے طور پر جانے جاتے ہیں ) کے حسن انتخاب کی بھی داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ انہوں نے اپنی اجتماعی کاوش اور یہودیوں کے نقطہ نظر کو اُردو زبان کے قارئین کے مطالعہ میں لانے کے لیے اس نوجوان محقق کو مبعوث فرمایاکہ جوایک ایسے مذہبی خانوادے سے تعلق رکھتا ہے جس کا مذہبی حلقوں میں خاصا احترام کیاجاتا ہے۔ یہی بات اگر وہ اپنے درجن بھر محققین میں سے کسی سے لکھواتے تو اس کا دین
Flag Counter