سے وابستہ حضرات پر وہ اثر ہرگز نہ ہوتا جو اس مقالہ کے اس نوجوان قلم کار کے لکھنے سے ہوگا۔ لیکن افسوس کہ لکھنے والے کو اپنے اس خاندانی مقام ومرتبہ اور دینی حمیت وغیرت کا وہ احساس نہیں جس کی بنا پر اشراقیوں کی نظر انتخاب اس پر ٹھہری ہے۔ عدل و انصاف کے قرآنی تصور کا عجیب و غریب تصور رکھنے والا یہ قلمکار اپنے تئیں یہ سمجھتا ہے کہ ملت ِاسلامیہ یہودیوں کے معاملے میں عدل و انصاف کے طریقے سے گریز کر رہی ہے، لہٰذا یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے صحیح راستہ سمجھائے۔ موصوف قرآنِ مجید کی آیت ’’کسی قسم کے ساتھ دشمنی تمہیں برانگیختہ کرکے ناانصافی پر آمادہ نہ کردے۔‘‘ نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ’’اگر مسلمان کسی موقع پر عدل و انصاف کے طریقہ سے گریز کا رویہ اختیار کریں تو قرآن مجید کی رو سے اہل ِایمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی رو رعایت کے بغیر اپنے بھائیوں کے سامنے حق کی شہادت دیں گے۔‘‘ پھر اپنے بارے میں ارشاد ہوتا ہے: ’’ذیل کی سطور میں ہم نے اس جذبہ کے ساتھ اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘ (ماہنامہ ’اشراق‘: جولائی ۲۰۰۳ء ،صفحہ ۳۴) ہم آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ متجددین کے اس گروہ کے ارکان کے قلوب میں یہ جذبہ ہر اس مقام پر آخر کیوں بیدار ہوتا ہے جہاں ملت ِاسلامیہ کے موقف کی مخالفت کرنی ہو۔ آخر انہوں نے یہ کیسے فرض کرلیا ہے کہ آج تک اُمت ِمسلمہ میں ایک بھی بطل جلیل ایسا پیدا نہیں ہوا جو یہودیوں کے ساتھ معاملات میں عدل و انصاف کے شرعی تقاضوں کو کماحقہ سمجھ سکا ہو۔ کیا یہ نکتہ صلاح الدین ایوبی جیسے عادل بادشاہ کو بھی نہ سوجھا جس نے اپنے مخالف برطانوی بادشاہ رچرڈ کی بیماری کا سنا تو اپنا معالج بھیج دیا۔ کیا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جنہوں نے یروشلم کے دورہ کے دوران عیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ بے مثال روا داری کا ثبوت دیا تھا، ان کے دل میں بھی عدل و انصاف کا وہ تصور بیدار نہ ہوا، جس کی نشاندہی کا ’اعزاز‘ دورِ حاضر کے اِس محقق کوحاصل ہوا ہے۔ |