Maktaba Wahhabi

47 - 64
مضمون کے اہم مقدمات پر تبصرہ مصنف کے تفصیلی مباحث کا جواب ہم بعد میں دیں گے ، ان کے اہم مقدمات پر مختصراً تبصرہ ہم پہلے پیش کرتے ہیں : 1. مسجد ِاقصیٰ پریہودیوں کے حق تولیت و تصرف کی وکالت کرتے ہوئے فاضل مضمون نگار لکھتے ہیں : ’’فتح بیت المقدس کے بعد مسلمانوں نے اس نہایت مقدس اور فضیلت والی عبادت گاہ کو جو صدیوں سے ویران پڑی تھی، آباد اور تعمیر کیا۔ قرآن و سنت کی اُصولی تعلیمات کی روشنی میں مسلمانوں کے اس اقدام کی نوعیت خالصتاً احترام و تقدیس اور تکریم و تعظیم کی تھی، نہ کہ استحقاق اور استیثار کی۔ اس کی تولیت کی ذمہ داری انہوں نے یہود کو اس سے بے دخل کرکے اس پر اپنا حق جتانے کے تصور کے تحت نہیں ، بلکہ ان کی غیر موجودگی میں محض امانتا ًاُٹھائی تھی۔ لیکن چونکہ اس سارے عرصہ میں یہود کے نزدیک نہ مذہبی لحاظ سے ہیکل کی تعمیر کی شرائط پوری ہوتی تھیں اور وہ نہ سیاسی لحاظ سے اس پوزیشن میں تھے کہ اس کا مطالبہ یا کوشش کریں ، اس لئے کم و بیش تیرہ صدیوں تک جاری رہنے والے اس تسلسل نے غیر محسوس طریقے سے مسجد اقصیٰ کے ساتھ مسلمانوں کی وابستگی اور اس پر استحقاق کا ایک ایسا تصور پیدا کردیا جس کے نتیجے میں معاملہ کااصل پس منظر اور اس کی صحیح نوعیت نگاہوں سے اوجھل ہوگئی۔‘‘ (اشراق: اگست ۲۰۰۳، صفحہ ۴۸) بیت المقدس کی تولیت کی ذمہ داری اور امانت کا مندرجہ بالا تصور مصنف کے مخصوص فکری رجحانات کانتیجہ ہے، ورنہ تاریخی طور پر اس کاکوئی وجود نہیں ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب مسلمانوں نے یروشلم فتح کیا تھا، تو ان کے اور عیسائیوں کے درمیان جو مفصل معاہدہ تحریر میں لایاگیا تھا، اس میں اس طرح کی کسی مزعومہ امانت کا ذکر تک نہیں ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ یہودیوں کی غیر موجودگی میں مسلمانوں کو اس بارِ امانت کے اُٹھانے کی ضرورت کیا تھی۔ بالخصوص حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے خلیفہ عادل کی موجودگی میں ، جسے یہ بھی گوارا نہ تھا کہ مسلمان بیت المقدس کے اس حصہ میں نماز ادا کریں جو عیسائیوں نے اپنی عبادت کے لئے منتخب کررکھا
Flag Counter