تھا۔ اگر اسے بعد میں یہودیوں کی تولیت میں دینے کا مسئلہ ہوتا، تومسلمان مذکورہ معاہدہ میں اس کا اِندراج ضرور کراتے، اتنی بڑی بات کو نظر انداز کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے یروشلم پہنچنے کے بعد اہل بیت المقدس کے ساتھ جو معاہدہ فرمایا، اس کے یہ الفاظ ہمارے خصوصی تجزیہ کے متقاضی ہیں : ’’یہ وہ امان ہے جو اللہ کے بندے امیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ نے اہل ایلیا کو دی۔ یہ امان ان کی جان، مال، گرجا، صلیب، تندرست، بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لئے ہے۔ نہ ان کے گرجاؤں میں سکونت کی جائے گی اور نہ وہ ڈھائے جائیں گے، نہ ان کو یا ان کے احاطے کو کوئی نقصان پہنچایا جائے گا۔ ایلیا کے باسیوں میں سے جو یہ چاہیں کہ اپنی جان و مال لے کر رومیوں کے ساتھ چلے جائیں اور اپنے گرجا اور صلیبیں چھوڑ جائیں تو ان کی جانوں ، گرجوں اور صلیبوں کو امان حاصل ہے یہاں تک کہ وہ کسی پرامن جگہ پر پہنچ جائیں ۔‘‘ ذرا غور فرمائیے ایک ایسا تفصیلی معاہدہ جس میں گرجا تو اپنی جگہ، ایک چھوٹی سی علامت تقدس یعنی ’صلیب‘ تک کو امان دینے کاذکر ہے۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ اس شہر میں کسی ہیکل سلیمان یا دیوارِ گریہ کے آثار موجود ہوتے جسے اس وقت کے یہودی اپنے معبد کے طور پر استعمال کرتے تھے اور ان کا ذکر اس معاہدے میں نہ ہوتا۔ معاہدے کے الفاظ بتاتے ہیں کہ یہ معاہدہ محض عیسائیوں سے نہیں تھا بلکہ ’ایلیا کے باسیوں ‘ سے تھا۔ ان باسیوں میں یہودی بھی شامل ہوں گے۔ یہ پیش نظر رہے کہ فلسطین سے یہودیوں کا سو فیصد اخراج کسی دور میں بھی نہیں ہوا۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ جب مسلمانوں نے یروشلم فتح کیا تو اس شہر میں یہودی بھی موجود تھے۔ یہودیوں کی تاریخ کے مطابق ہیکل سلیمانی کو عیسائی فاتحین نے تباہ کیا تھا۔ اب جبکہ مسلمانوں نے عیسائیوں سے یہ مقدس شہر چھین لیا تھا، تو یہودیوں کے لئے یہ نادر موقع تھا کہ وہ مسلمانوں سے اپنے مقدس مقامات کی بحالی کی درخواست گذارتے کیونکہ ان کی فاتح مسلمانوں سے براہِ راست کوئی جنگ نہیں تھی اور دیکھا گیا ہے کہ عام طور پر پسے ہوئے طبقات نئے فاتح کے سامنے پرانے فاتح کی شکایات پیش کرتے ہیں ۔ مثلاً پنجاب کے مسلمانوں نے انگریزوں سے سکھوں کی شکایت کی کہ انہوں نے ان کے مقدس مقامات مثلاً |