شاہی مسجد لاہور کا تقدس پامال کیا۔ انگریزوں نے مسلمانوں کی اس شکایت کا فوراً ازالہ کردیا۔ مگر یہودیوں کی طرف سے اس طرح کی کسی درخواست کا تاریخ میں ذکر نہیں ہے۔ آخر کیوں ؟ اس کی وجہ سوائے اس کے اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہاں کسی ہیکل سلیمانی کے آثار موجود نہ تھے جس کی بحالی کی وہ درخواست کرتے۔ یہ واقعی ایک مزعومہ ہیکل تھا، جس کا فسانہ فری میسن تحریک نے گھڑا تھا۔ یہ بھی مصنف کی یہود نوازی کا شاخسانہ ہے جو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہود مذہبی یا سیاسی لحاظ سے اس پوزیشن میں نہ تھے کہ اس کا مطالبہ یا کو شش کریں ۔ یہودیوں کی اتنی بڑی اُمت میں کیا کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جو تیرہ سوبرسوں میں کبھی کسی مسلمان حکمران سے یہ مطالبہ کرتاکہ یہودیوں کو ہیکل تعمیر کرنے کی اجازت دی جائے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتاکہ ان کایہ مطالبہ مسترد کردیا جاتا، جس کا امکان کم تھا۔ انہیں محض اس مطالبہ پر کوئی مسلمان خلیفہ قتل کی سزا تو نہ دیتا۔ پھر آخر کیا و جہ ہے کہ تاریخ ان کی طرف سے اس طرح کے مطالبہ کے ذکر سے یکسر خالی ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ ایسے واقعات سے خالی نہیں ہے جس میں ظاہری طور پر شرع کے پابند مسلمان بادشاہوں نے غیر مسلم رعایا کے لئے عبادت گاہیں تعمیر کیں ۔ سپین کے مسلمان بادشاہوں نے عیسائی رعایا کے لئے گرجوں کی تعمیر کے لئے رقوم عطا کیں ۔ برصغیر میں اورنگ زیب عالمگیر نے ہندوؤں کے مندر شاہی خزانے سے تعمیر کرائے۔ تاریخی حقیقت وہی ہے جس کا ذکر ڈاکٹر یوسف قرضاوی، فلسطین کے موجودہ مفتی اعظم عکرمہ صبری، فلسطینی اتھارٹی کے ڈائریکٹر آف اسلامک وقف شیخ اسماعیل اور جناب یاسرعرفات نے اپنے ان بیانات میں کیا ہے، جنہیں نقل کرنے کے بعد ’اشراق‘ کے مضمون نگار نے انہیں ’کتمانِ حق‘ اور ’تکذیب ِآیات اللہ‘ قرار دیا ہے۔ ان حضرات نے اپنے بیانات میں بالکل درست کہا ہے کہ ’’ہیکل ِسلیمانی کا کوئی وجود نہیں ہے۔‘‘ فلسطین کے موجودہ مفتی اعظم صاحب کی تحقیق یہی ہے کہ ’’پورے شہر میں کوئی ایک پتھر بھی ایسا نہیں جو یہودی تاریخ پر دلالت کرتاہو۔ یہودی تو یہ |