Maktaba Wahhabi

50 - 64
تک نہیں جانتے کہ ان کے ہیکل کا ٹھیک ٹھیک محل وقوع کیا تھا، اس لئے ہم اس مقام پر سطح زمین کے نیچے یا اس کے اوپر ان کا کوئی حق تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔‘‘ جب تاریخی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ مسجد ِاقصیٰ کے ساتھ کوئی ہیکل سلیمانی موجودنہیں تھا، کم از کم اس وقت جب مسلمانوں نے یروشلم فتح کیا، تو اس کی تولیت کا فسانہ کھڑاکرنا حد درجہ شر انگیزی اور مسلمانوں میں یہودی سوچ کو پروان چڑھانے کی افسوسناک سازش ہے۔ تمام عالم عرب اور اُمت ِمسلمہ کے اجماعی موقف کو ’تکذیب آیات اللہ‘ قرار دینا ایک ایسی مذموم حرکت ہے جس کا علما کو سخت نوٹس لینا چاہئے۔ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا قضیہ اٹھانے کی و جہ؟ 2. مصنف خلاصۂ بحث پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’گذشتہ صدی میں جب یہود کے مذہبی حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ باقاعدہ صورت میں سامنے آیا تو وہ صہیونی تحریک کے سیاسی عزائم کے جلو میں آیا۔ اُمت ِمسلمہ کی اخلاقی ذمہ داری بلا شبہ یہ تھی کہ وہ سیاسی کشا کش سے بالاتر ہوکر اس مطالبہ کو اس کے صحیح شرعی و مذہبی تناظر میں دیکھتی اور اسلام کی اُصولی تعلیمات کی روشنی میں اس معاملے کا فیصلہ عدل و انصاف کے ساتھ بالکل بے لاگ طریقے سے کرتی۔ اہل کتاب اور ان کی عبادت گاہوں کے بارے میں اسلام کی اصل تعلیم رواداری اور مسامحت کی ہے۔ مرکز ِعبادت اور قبلہ کی حیثیت رکھنے والے مقام کے احترام اور اس کے ساتھ وابستگی کی جو کیفیت مذاہب ِعالم کے ماننے والوں میں پائی جاتی ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں ۔ اس طرح یہود کی شریعت میں ہیکل کے مقام وحیثیت، اس کی تباہی و بربادی پر ان کے دلوں میں ذلت و رسوائی کے احساسات اور اس کی بازیابی کے حوالہ سے ان کے سینوں میں صدیوں سے تڑپنے والے مذہبی جذبات بھی ایک مسلمہ حقیقت ہیں ۔ یہ ایک نہایت اعلیٰ، مبارک اور فطری جذبہ ہے اور خود قرآنِ مجید یہود سے ان کے اس مرکز ِعبادت کے چھن جانے کی وجہ ان کے اخلاقی جرائم کو قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس امکان کو بھی صراحتاً تسلیم کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اور ان کی آزمائش کے لئے اس مرکز کو دوبارہ ان کے تصرف میں دے دے۔‘‘ (ایضاً، صفحہ ۴۸)
Flag Counter