Maktaba Wahhabi

51 - 64
جیسا کہ مصنف نے خود اعتراف کیا ہے، اصل میں یہ سب صہیونیوں کے مکروہ سیاسی عزائم تھے جن کی تکمیل کے لئے وہ یہ تمام ایجنڈا پیش کررہے تھے۔ ۱۸۹۷ء میں تھیوڈرہرزل کی قیادت میں جب صہیونی تحریک وجود میں آئی تواس کا اصل ہدف فلسطین میں یہودی ریاست کا قیام تھا۔ ہیکل سلیمانی کی تعمیر یا دیوارِ گریہ کی مرمت ان کا مقصود ہرگز نہ تھا، فاضل مصنف اگر یہودی انسا ئیکلو پیڈیا یا یہودی رِبیوں کی طرف سے حاصل کردہ معلومات تک ہی اپنے آپ کو محدود نہ رکھتے تو ان کے لئے یہ جاننامشکل نہ تھا کہ صہیونی لیڈروں نے عثمانی خلیفہ عبدالحمید سے بار بار فلسطین میں خطہ فراہم کرنے کامطالبہ کیا تھا جہاں وہ یہودی ریاست قائم کرسکیں ۔ راقم الحروف پورے وثوق کے ساتھ یہ بات کہتا ہے کہ اگر یہودی عثمانی خلیفہ سے یہودی ریاست کے قیام کی بجائے مزعومہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور اس کی تولیت کی درخواست کرتے تو وہ اسے شرفِ قبولیت سے ضرور نوازتا۔ کیونکہ اسی عثمانی خلیفہ نے یورپ سے نکالے گئے ہزاروں یہودیوں کو اپنی سلطنت میں پناہ ہی نہیں دی، خوشحالی کے وسائل بھی فراہم کئے تھے۔ یہودی اتنے سادہ لوح نہ تھے، جتنا کہ فاضل مصنف ان کے بارے میں ہمیں تاثر دینا چاہتے ہیں ۔ یہودی تولیت پر قناعت کرنے والے نہ تھے، ہیکل سلیمانی کا فسانہ تو انہوں نے یہودی ریاست کو جواز عطاکرنے کے لئے ہی گھڑا تھا ورنہ ان کی بات میں وزن کیسے پیدا ہوتا۔ ’اشراق‘ کے مضمون نگار یہودی ذہنیت کو سمجھنے میں قطعی طور پر ناکام رہے ہیں ۔ وہ یہودیوں کے سینوں میں صدیوں سے تڑپنے والے مذہبی جذبات کا بہت واویلا کرتے ہیں اور انہیں مبارک خیال کرتے ہیں ۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صدیوں سے تڑپنے والے جذبات قیامِ اسرائیل کے بعد بالآخر جھاگ کی طرح کیوں بیٹھ گئے؟ اب ان کا وہ ’نہایت اعلیٰ، مبارک اور فطری جذبہ‘ کہاں غتر بود ہوگیا؟ وہ اتنے پرجوش تھے تو اب تک ہیکل سلیمانی تعمیر کیوں نہ کرسکے، کیا انہیں مسلمانوں کاڈر ہے یا عالمی رائے عامہ کا؟ اب تک انہوں نے جن وحشیانہ کارروائیوں کا ارتکاب کیا ہے، اس سے تو معلوم ہوتا ہے وہ کسی کے خوف میں مبتلا نہیں ہیں !!
Flag Counter