Maktaba Wahhabi

52 - 64
مصنف نے مسلمانوں کی ’عدم رواداری‘ کا ذکر چھیڑ کر مسلمانوں میں ’احساسِ جرم‘ کو بیدار کرنے کی بے کارکوشش کی ہے حالانکہ مسلمانوں کی پوری تاریخ یہودیوں کے ساتھ رواداری پر مبنی رہی ہے۔ مسلمانوں کے دور میں یہودیوں کی تجارت خوب چمکی۔ وہ مشرقِ وسطیٰ سے سامان لے کر یورپ جاتے تھے اور خوب کمائی کرتے تھے، آج یہودیوں کی خوشحالی کی اصل وجہ مسلمانوں کی یہی تاریخی روا داری ہی ہے ۔ مصنف کا یہ کہنا کہ قرآنِ مجید میں یہودیوں کو ان کے مرکز دوبارہ ملنے کے امکان کا ذکر ہے، محض سوئے تاویل اور قرآنی آیات کی معنوی تحریف ہے۔ قرآن مجید میں یہودیوں کے جس دوبارہ تصرف کی بات کی گئی ہے ، وہ بخت نصر کی فتح کے بعد وقوع پذیر ہوچکا ، اب قرآنِ مجید کی رو سے ان کے کسی تصرف کا امکان ظاہر نہیں ہوتا۔ قرآنی آیات کی اس طرح معنوی تحریف یہودی موقف کی وکالت کے زمرے میں آتی ہے۔ 3. اشراق کے مضمون نگاربالآخر اس نتیجہ پر پہنچے ہیں : ’’اس معاملہ میں اُمت ِمسلمہ کے موقف اور رویے کا جس قدر بھی تجزیہ کیجئے، یہی بات نکھرتی چلی جاتی ہے کہ وہ ’استحقاق‘ کی نفسیات سے مغلوب ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں مسجد اقصیٰ کی تولیت کی ’امانت‘ کو ایک مستقل مذہبی حق قرار دینے اور یہود کو اس سے قطعاً لاتعلق ثابت کرنے کے لئے علمی سطح پر انحرافات کا ایک سلسلہ وجود میں آچکا ہے۔ ہیکل کی بازیابی اور تعمیرنو کے ایک مقدس مذہبی جذبے کو ’مسجد ِاقصیٰ کی حرمت کی پامالی کی یہودی سازش‘ کا عنوان دے کر ایک طعنہ اور الزام بنا دینامسجد ِاقصیٰ پر یہود کے تاریخی و مذہبی حق کی مطلقاً نفی کردینا اور اس سے بڑھ کر ان کو اس میں عبادت تک کی اجازت نہ دینا ہرگز کوئی ایسا طرزِ عمل نہیں ہے جو کسی طرح بھی قرین انصاف اور اس اُمت کے شایانِ شان ہو جس کو قوامین اللّٰه شھداء بالقسط کے منصب پرفائز کیا گیا ہے۔ ‘‘ (صفحہ ۴۹) صرف مذکورہ مضمون نگار ہی نہیں ، یہودی پراپیگنڈہ سے مرعوب و متاثر کوئی بھی صاحب قلم جب اُمت ِمسلمہ کے موقف کا اپنی کج فکری کی تجربہ گاہ میں تجزیہ کرے گا، تو اسی نتیجہ پر پہنچے گا۔ موصوف کو اُمت ِمسلمہ کاموقف تو استحقاق کی نفسیات سے مغلوب لگتا ہے، مگر یہودیوں
Flag Counter