Maktaba Wahhabi

53 - 64
کے موقف میں کوئی سقم نظر نہیں آتا۔ یہودی آج تک ہیکل سلیمانی کا وجود ثابت نہیں کرسکے، مگر یہودیوں کے متعلق نرم گوشہ رکھنے والے بزعم خویش محقق کی نگاہ میں ان کا موقف پتھر پر لکیر کی طرح ثبت ہے۔ مصنف جس گروہ کی ہم نوائی کررہا ہے، اسے مسلمانوں کے مسلمہ موقف میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی خرابی نظر آتی ہے۔ کشمیر کا مسئلہ ہو، یا فلسطین کا، افغانستان پر امریکی بمباری ہو یا عراق پر امریکی قبضہ، وہ ہمیشہ مسلمانوں کی مخالف سمت میں نظر آتے ہیں !! ہم اُوپر کی سطور میں لکھ چکے ہیں کہ ہیکل کی بازیابی اور تعمیر نویہودیوں کاکوئی مقدس جذبہ نہیں ہے۔اگر اس میں ذرّہ برابر صداقت ہوتی تو کوئی امر مانع نہ تھا کہ آخر وہ اس کی تکمیل کیوں نہ کرتے، یہ مصنف کی محض سطحی تاویل تراشی اور کھوکھلی موضوعیت ہے جس کی بنا پر انہیں یہودیوں کے ’مقدس جذبہ‘ پر اس قدر ایمان ہے۔ مصنف یہودیوں کو مظلوم ثابت کرنے کے جوش میں اس تاریخی حقیقت کو جھٹلانے سے بھی باز نہیں رہے کہ یہودیوں کو مسلمانوں نے کبھی ان کی اپنی تعمیر کردہ عبادت گاہ پرعبادت کرنے سے باز نہیں رکھا۔ صہیونی جنونیوں کی اصل دلچسپی مسلمانوں کی عبادت گاہ کو گرا کر اس پر ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا ہے۔مصنف صہیونی مزاج اور ان کی نفسیات کا بہ نظر عمیق مطالعہ فرماتے تو یہ جاننا مشکل نہ تھا کہ یہودی مسلمانوں کی مسجد ِاقصیٰ گرا کر مسلمانوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس مقدس سر زمین سے روحانی اور سیاسی طور پر بے دخل کرنا چاہتے ہیں ۔مسجد اقصیٰ ہی مسلمانوں کی جذباتی وابستگی کا اصل محور ومرکز ہے، جب یہ باقی نہیں رہے گا تو مسلمانوں کے حقوق کی بحالی کی کوئی بھی تحریک چلانا مشکل ہو جائے گا۔مسجد اقصیٰ کو گرا کر ہیکل سلیمانی کی تعمیرمیں جو پیغام پوشیدہ ہے اسے ہر صاحب ِعقل بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے پردے میں یہودی بیت المقدس پر اپنا سیاسی تسلط مستحکم کرنا چاہتے ہیں ،مصنف خوامخواہ ان کے حق تولیت کی وکالت فرما رہے ہیں ۔ 4. اپنے مضمون میں مصنف ایک مقام پر لکھتے ہیں : ’’۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل مشرقی یروشلم پرقبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا جس میں مسجد ِاقصیٰ واقع ہے اور مسجد کواسرائیلی فوج نے اپنے کنٹرول میں لے لیا، تاہم اسرائیلی وزیر دفاع موشے دایان نے خیرسگالی کے اظہار کے طور پر احاطہ مقدسہ کی چابیاں
Flag Counter