Maktaba Wahhabi

54 - 64
اُردن کے حکمران ہاشمی خاندان کے سپرد کردیں ۔‘‘ (اشراق: جولائی، صفحہ۴۰) راقم الحروف کے علم کے مطابق کسی مذہبی رسالہ میں لکھنے والا یہ پہلا مصنف ہے جس کی عقابی نگاہ نے تاریخ کے خونیں صفحات سے ظالم موشے دایان کی اس ’خیرسگالی‘ کو کھود نکالا ہے، ورنہ یہ تاریخ کے دبیز پردوں میں ہی ملفوف رہتی۔ ہمارے وہ سیکولر دانشور جو اسرائیل کی حمایت میں مہم برپا کئے ہوئے ہیں ، وہ اس ’خیرسگالی‘ کو خوش آئند کہیں گے۔ اُنہیں ضرور مسرت ہوگی کہ اب ’اہل شریعت‘ میں سے بھی کچھ محقق میدان میں آگئے ہیں جو یہودیوں کی’خیرسگالی‘ پر دل سے یقین رکھتے ہیں ۔ ہمیں حیرت ہے کہ فاضل مصنف نے اسرائیلی قیادت کی طرف سے ’خیرسگالی‘ کا محض یہ اکلوتا واقعہ بیان کرنے پر ہی اکتفا کیوں کیا، وہ چاہتے تو اسرائیلی وزیراعظم ایرل شیرون کی اس ’خیرسگالی‘ کا ذکر بھی کرسکتے تھے جس کا اس نے حال ہی میں جناب یاسرعرفات کے ساتھ اظہار کیا ہے، یعنی ان کے ہیڈکوارٹر پر ٹینک چڑھانے کے بعد اس پر قبضہ نہ کرنا بھی تو آخر ’خیرسگالی‘ کا اظہار ہی تھا۔ ’جنین‘ کے قصبہ پر بلڈوزر چڑھانے کے بعد، چند سخت جان خواتین و حضرات کی جاں بخشی کیا کم ’خیرسگالی‘ تھی جس کا ذکر کرنا فاضل مصنف بھول گئے؟ موصوف نے اپنے مضمون میں جو زورِ قلم دکھایا ہے، ہمیں حسن ظن ہے کہ اگر وہ چاہتے تو نہ جانے ’خیرسگالی‘ کے کیسے کیسے نادرۂ روزگار واقعات پر روشنی ڈال سکتے تھے۔ حق تولیت …چند اہم سوالات مضمون نگار نے مسجد ِاقصیٰ پریہودیوں کے حق ِتولیت کو ثابت کرنے کے لئے جو مواد جمع کیا ہے، اس کامعتدبہ حصہ یہودی ذرائع ابلاغ اور یہودی ربیوں کی ویب سائٹس سے اَخذ شدہ معلوم ہوتا ہے اور جہاں کہیں قرآن وسنت، اسلامی تاریخ سے حوالہ جات نقل کئے ہیں ، ان کے سیاق و سباق اور حقیقی مفہوم کو صحیح تناظر میں رکھ کر سمجھنے کی بجائے من چاہی نکتہ آفرینیوں سے ذہن میں پہلے سے بنے بنائے نتائج کو ’تحقیق‘ کا نام دے کر پیش کردیا ہے۔ یہی و جہ ہے کہ موصوف نے اپنے دلائل کاجو پایۂ چو بیں شدید دماغی کاوش کے بعد ترتیب دیا ہے، اس
Flag Counter