کے انہدام کے لئے باہر سے اضافی مواد کو جمع کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے بلکہ ان کے اپنے پیش کردہ موادکی صحیح تعبیر کردی جائے تو ان کا استدلال کھوکھلا ہی نہیں باطل بھی ثابت ہوجائے گا۔ اس پوری بحث میں چند باتیں بے حد اہم ہیں ، مثلاً : 1. ہیکل ِسلیمانی کی تعمیر کے اصل مقام کا تعین کیسے کیا جائے؟ کیا اس کے لئے محض یہودی روایات کو ہی کافی سمجھا جائے یا اسلامی تاریخ سے بھی مدد لی جاسکتی ہے؟ 2. قبہ صخرا کی حقیقت کیاہے؟ اس کے مقام کا تعین کیونکر کیا جائے؟ 3. کیا مسجد ِاقصیٰ عین ہیکل ِسلیمانی کی جگہ تعمیر کی گئی یا اس سے ذرافاصلے پر؟ فرض کیجئے یہ وہاں قائم کی گئی جہاں پرتباہ شدہ ہیکل سلیمانی کے آثار تھے، تو مسلمانوں کے اس اقدام کے محرکات کیا تھے؟ 4.’دیوارِ گریہ‘ کی حقیقت کیاہے؟ کیا یہ ہیکل سلیمانی کا باقی ماندہ حصہ ہے جسے وہ موجودہ مسجد ِاقصیٰ کی مغربی دیوار کہتے ہیں ؟ دیوارِ گریہ کا دیوارِ براق سے کوئی تعلق ہے؟ 5. جب مسلمانوں نے یروشلم فتح کیا تو ہیکل سلیمانی کی پوزیشن کیا تھی؟ جیسا کہ مصنف نے تحریر کیا ہے کہ ’’اُمت ِمسلمہ کی نمائندگی کرنے والے مذہبی و سیاسی رہنماؤں ، صحافیوں اور ماہرین تاریخ کی اکثریت‘‘ سرے سے ہیکل سلیمانی کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کرتی، اس کے مقام کے تعین کاسوال تو رہا ایک طرف۔ موصوف کی طرف سے پیش کردہ چند معروف شخصیات کے مختصر اَقوال کو یہاں دہرانا ضروری معلوم ہوتا ہے : (i) ڈاکٹر یوسف قرضاوی فرماتے ہیں : ’’اپنے تمام تر ترقی یافتہ سائنسی ، تکنیکی اور انجینئرنگ کے سامان کے ساتھ وہ تیس سال سے تلاش کررہے ہیں کہ مفروضہ ہیکل سلیمانی کا کوئی نشان ہی مل جائے لیکن وہ اس میں ناکام ہیں ۔ اس نام نہاد ہیکل سلیمانی کے وجود کااِمکان ہی کہاں ہے؟‘‘ (اِشراق: اگست ۲۰۰۳ء) (ii) فلسطین کے موجودہ مفتی اعظم عکرمہ صبری صاحب کا مفصل بیان اوپر درج کیا گیا ہے، ان کے بیان کی یہ سطر اہم ہے: ’’یہودی تو یہ تک نہیں جانتے کہ ان کے ہیکل کاٹھیک ٹھیک محل وقوع کیاتھا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا: ’’دنیا کو دھوکہ دینا یہودیوں کا خاص فن ہے۔ لیکن وہ |