Maktaba Wahhabi

56 - 64
ہمیں دھوکہ نہیں دے سکتے، مغربی دیوار کے ایک بھی پتھر کا یہودی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ۔‘‘ (iii)فلسطینی اتھارٹی کے ڈائریکٹر شیخ اسمٰعیل جمال کا بیان بھی نقل کرچکے ہیں ، وہ کہتے ہیں : ’’اسرائیل کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ الاقصیٰ کے نزدیک نہ ان کا کوئی ہیکل ہے اور نہ اس کے کوئی بچے کھچے آثار۔ قرآنِ مجید کی رو سے بنی اسرائیل بیت ِلحم کے مغرب میں کسی جگہ مقیم تھے، نہ کہ یروشلم میں …‘‘ (iv) جناب یاسرعرفات نے ۲۰۰۰ء میں اسرائیلی وزیراعظم ایہودبارک کے ساتھ مذاکرات کے دوران ہیکل سلیمانی کے وجود کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا۔ انہوں نے کہا: ’’میں ایک مذہبی آدمی ہوں اور میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا کہ میرے ذکر میں یہ بات لکھی جائے کہ میں نے اس پہاڑی کے نیچے مفروضہ ہیکل کی موجودگی کو تسلیم کرلیا۔‘‘ (ایضاً) (v) رابطہ عالم اسلامی کے سرکاری بیانات اور عرب اخبارات و جرائد میں لکھنے والے کم وبیش تمام اصحابِ قلم کی تحریروں میں ہیکل سلیمانی کا ذکر کرتے ہوئے الھیکل المزعوم (مفروضہ ہیکل) کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں ۔ رابطہ کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی نے اس دعویٰ کو مسترد کیا ہے کہ ’’مسجد اقصیٰ ہیکل سلیمانی کے کھنڈرات کے اوپرقائم ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ تاریخی دستاویزات اسرائیلیوں کے اس دعویٰ کے بطلان کوثابت کرتی ہیں جس کا اعلان وہ مسجد گرا کر اس کی جگہ ہیکل کی تعمیر کے منصوبوں کی تکمیل کی غرض سے کرتے رہے ہیں ۔‘‘ مندرجہ بالا انتہائی قابل اعتبار اور اہم حوالہ جات کونقل کرنے کے بعد مضمون نگار اس رائے کا اظہار کرتے ہیں : ’’حقائق و واقعات کی رو سے یہ موقف اس قابل نہیں کہ اس علمی و تاریخی بحث میں اس سے تعرض بھی کیا جائے۔ قرآن و سنت کی تصریحات، مسلمہ تاریخی حقائق، یہود و نصاریٰ کی مذہبی روایات مسلمانوں کے تاریخی لٹریچر اور مسلم محققین کی تصریحات کی روشنی میں نہ اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہے کہ مسجد ِاقصیٰ دراصل ہیکل سلیمانی ہی ہے، نہ اس دلیل میں کوئی وزن ہے کہ اثریاتی تحقیق کے نتیجہ میں مسجد ِاقصیٰ کے نیچے ہیکل سلیمانی کے کوئی آثار دریافت نہیں ہوسکے۔‘‘ اس قدر جذباتی ہیجان خیزی میں مبتلا ہونے کے باوجود موصوف کی نرگسیت اور پندار کا
Flag Counter