ٹھکانہ نہیں ہے کہ وہ اسے ’علمی و تاریخی بحث‘ قرار دیتے ہیں ۔ اگر موصوف کسی خاص ’اشراقی جلال‘ میں آکر یہ باتیں کہتے تو صوفیا کی بعض شطحات کی طرح ان کی تاویل شاید قبول کی جاسکتی تھی مگر وہ تو مصر ہیں کہ ان کی یہ جذباتی رائے بھی قرآن و سنت، تاریخی حقائق وغیرہ سے مستنبط ہے۔ لہٰذا ہم ان سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ آخر قرآن و سنت کی وہ کون سی تصریحات ہیں جو ان کے علم میں تو ہیں مگر اُمت ِمسلمہ کے کسی عالم، مؤرخ یا محدث کی نگاہ سے اب تک اوجھل رہی ہیں ۔ کیا مصنف قرآنِ مجید کی کوئی ایک آیت یا کسی ایک حدیث کاحوالہ دے سکتے ہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ مسجد ِاقصیٰ کی تعمیر ہیکل سلیمانی کی جگہ پر کی گئی ہے ؟ یہودیوں کے موقف کی تائید میں اگر کوئی ’تاریخی حقائق‘ہیں تو اس کو وہ خود ثابت نہیں کرسکے، البتہ اس کا علم ہمارے ممدوح کو ضرور ہوگیا ہے۔ اگر ’تاریخی حقائق‘ کی خود ساختہ کہانی میں ذرا سی جان بھی ہوتی تو مندرجہ بالاجلیل القدر،علمی و سیاسی شخصیات بقائم حوش وحواس ان کا انکار کیسے کرسکتی تھیں ؟ کیا آج کے سائنسی دور میں ’تاریخی حقائق‘ کو اس اعتماد اور یقین کے ساتھ مسترد کیا جاسکتا ہے جس کا اظہار ان کے بیانات سے ہوتا ہے؟ تعصب اور مذہبی جذبات ایک طرف، تاریخی حقائق کو اس انداز میں جھٹلانا ممکن نہیں !! اگر اُمت ِمسلمہ کے اہل علم یہودیوں کے پیش کردہ ’تاریخی حقائق‘ کو جھٹلاتے ہیں ، تو ہمارا ایمان یہ کہتا ہے کہ ان کی یہ بات درست ہے کیونکہ یہودی ’مفروضات‘ کوتاریخی حقائق بنا کر پیش کررہے ہیں ۔ کوئی معقول و جہ نہیں ہے کہ ان کی دیانت پر شک و شبہ کا اظہار کیاجائے، وہ بھی یہودیوں کے مقابلے میں جن کے دجل و فریب سے ایک زمانہ واقف ہے۔ مصنف نے محض قلمی روانی میں اس فہرست میں ’یہود و نصاریٰ کی مذہبی روایات‘ کا ذکر بھی کردیا ہے۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جو سوال زیر بحث ہے، اس کاجواب یہودی مذہبی روایات سے آخر کیونکر دیا جاسکتا ہے؟ اصل سوال یہ ہے کہ مسجد ِاقصیٰ، ہیکل سلیمانی پر تعمیر کی گئی ہے یا نہیں ؟ اس بات کا جواب یہودیوں کی تاریخ سے تو دیا جاسکتا ہے مگر ان کی مذہبی روایات سے نہیں کیونکہ بنو اسرائیل کی مذہبی روایات، اسلام سے پہلے کی ہیں اور مسجد ِاقصیٰ بقولِ مصنف بنو اُمیہ کے دورمیں تعمیر کی گئی |