Maktaba Wahhabi

58 - 64
تھی۔یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ معروف معنوں میں جسے آج کل مسجد ِاقصیٰ سمجھا جاتا ہے وہ یہی مسجد ہے۔یہودی بھی اسی ’مسجد اقصیٰ‘ کو گرانے کے در پے ہیں جبکہ قرآن مجید میں جس’مسجد اقصیٰ‘ کا ذکر آیا ہے وہ مسجد ِحرام کی طرح محض ایک احاطہ کی صورت میں تھی، اس وقت وہاں کوئی عمارت نہ تھی۔ تولیت کا تعلق ہمیشہ کسی عمارت سے ہوا کرتا ہے۔ فتح مکہ کے وقت خانہ کعبہ کے متولیوں کا ذکر ملتا ہے نہ کہ مسجد ِحرام کا۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود مسجد ِاقصیٰ (احاطہ) پر مسلمانوں کی طرف سے تولیت کا آغازبھی عملاً اسی مسجد (بنو اُمیہ کی تعمیر کردہ) کے وجود میں آنے کے بعد ہوا ۔مسجد ِاقصیٰ کی حیثیت کے متعلق مزید تفصیل ہم آگے بیان کریں گے۔ اس منطقی استدلال کو کسی زمرے میں شمار کیا جائے جس میں زمان و مکان کا احساس تک نہ رہا ہو۔ یہی حال مسلمانوں کے ’تاریخی لٹریچر اور مسلم محققین کی تصریحات‘ کے حوالے کا ہے۔ ان کی رو سے یہودیوں کے دعویٰ کا بطلان ثابت ہوتا ہے نہ کہ تصدیق۔ اس قدر لن ترانی اور شاعرانہ تعلّی سے کام لینے کے بعد، ہمارا خیال تھا کہ مصنف اپنے دعویٰ کی تائید میں قرآن وسنت کے حوالہ جات پیش فرمائیں گے، تاریخی حقائق کے چکا چوند دفاتر کھول کر رکھیں گے اور اسرائیل کی مذہبی روایات پیش کریں گے مگر وائے افسوس! تخیل کے براق پر سواریہ محقق اپنے بلند بانگ دعویٰ کے ثبوت کے لئے ڈھونڈ ڈھانڈ کر اگر کچھ پیش کرسکے تو وہ ۱۹۳۰ء میں شائع شدہ ایک ٹورسٹ گائیڈ کی تین چار غیر متعلقہ سطور تھیں ۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے ہم مصنف کی پیش کردہ دو سطور یہاں خاص طور پر نقل کر رہے ہیں : ’’اس کمرے کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں یقینی طور پرکچھ معلوم نہیں ۔ غالباً اس کی تاریخ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے معاصر ہے۔ مؤرخ یوسفس کے مطابق ۷۰ عیسوی میں طیطس کے فتح یروشلم کے وقت یہ موجود تھے اور یہودیوں نے اسے پناہ گاہ کے طور پراستعمال کیا گیا۔‘‘ (ایضاً) ہم نہیں جانتے کہ مصنف نے یہ سطور کس غرض سے نقل کی ہیں ۔ اگر ان کامقصد مندرجہ بالا سوال کا جواب دینا ہے تو اس کے متعلق ان سطور سے ہمیں کوئی روشنی نہیں ملتی بلکہ اُلٹا متضاد معلومات ملتی ہیں ۔ ان نقل کردہ سطور میں ہیکل سلیمانی اور ’کمرے‘ کا الگ الگ ذکر ہے ۔ اگر اس ’کمرے‘ سے مراد موجودہ مسجد ِاقصیٰ لی جائے تو اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہیکل سلیمانی
Flag Counter