Maktaba Wahhabi

59 - 64
اور مسجد ِاقصیٰ ایک مقام پر نہیں ہیں ۔ یہ کمرے ہیکل کے وقت بنائے گئے مگر اس کی تباہی کے بعد بھی قائم رہے جس میں یہودیوں نے پناہ حاصل کی۔ مندرجہ بالا حوالہ نقل فرمانے کے بعد مصنف بیت المقدس کی فضیلت اور قبہ الصخرہ کے قابل تعظیم نہ ہونے کاذکر لے بیٹھتے ہیں ۔ اس غیر متعلقہ بحث میں پڑ کر مصنف ایک حد تک ثابت بھی کردیتے ہیں کہ بیت المقدس کو ’حرم‘ کا مقام نہیں دیا جاسکتا مگر مذکورہ بالا سوال کا جواب پھر بھی تشنہ رہتا ہے۔ جب صخرہ کی فضیلت اور تعظیم کے جمہور علما قائل ہی نہیں ہیں ، تو نجانے کس ’ذوقِ تحقیق‘ کی تسکین کے لئے انہوں نے حوالہ جات کی بھرمار کردی ہے۔ اس معاملے میں شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ مختصر قول ہی کافی تھا : ’’فضیلت صرف مسجداقصیٰ کی ہے، صخرہ کی نہیں ! ‘‘ دیوارِ گریہ ’دیوارِ گریہ‘ کے وجود و مقام کے تعین کے متعلق بھی اِشراق کے مضمون نگار یہودی موقف کے ساتھ’’وفاداری بشرطِ استواری اصل ایماں ہے‘‘کا مظاہرہ فرماتے ہیں ۔ یہودیوں بالخصوص فری میسن تحریک کے ڈرامہ بازوں نے اس بارے میں جو کچھ کہہ دیا ہے، اس میں کسی قسم کا شبہ وارد کرنا وہ ’ضعف ِایمان‘ کی علامت سمجھتے ہیں ۔ البتہ یہاں بھی مسلم اکابرین کی ’خطا گرفتن‘ کی جسارت کا ارتکاب اسی بے باکی سے فرماتے ہیں اور یہ حد درجہ افسوسناک ہے۔ نوجوان محقق فرماتے ہیں: ’’۱۹۷۰ء میں ہیکل سلیمانی کی تباہی میں اس کی مغربی دیوار محفوظ رہ گئی تھی۔مذہبی وتاریخی اہمیت کے پیش نظر اس دیوار کو یہود کے ہاں ایک متبرک و مقدس مقام کی حیثیت حاصل ہوگئی اور اس دیوار کی زیارت کے لئے آنے اور اس کے پاس دعاو مناجات اور گریہ وزاری نے رفتہ رفتہ ان کے ہاں ایک مذہبی رسم کی حیثیت اختیار کرلی۔ یہ حقیقت تاریخی لحاظ سے مسلم ہے۔‘‘ یہ ان کا بیان ہے جو بادئ النظر میں درست نہیں ہے۔ عرب مسلمانوں اور اُمت ِمسلمہ کا موقف یہ ہے کہ یہ مغربی دیوار دراصل وہ مقام ہے جس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر معراج کے موقع پر اپنی سواری کے جانور ’براق‘ کوباندھا تھا، اس لئے یہ مسلمانوں کابھی مقدس مقام ہے۔ مفتی اعظم فلسطین عکرمہ صبری فرماتے ہیں :
Flag Counter