Maktaba Wahhabi

60 - 64
’’بات بالکل صاف ہے: دیوارِ گریہ یہودیوں کا مقدس مقام نہیں ہے یہ تو مسجد کا اٹوٹ انگ ہے۔ ہم اس کو دیوارِ براق کہتے ہیں جو اس گھوڑے کا نام ہے جس پر سوار ہوکر محمد صلی اللہ علیہ وسلم یروشلم سے آسمان پر تشریف لے گئے… دیوارِ براق کے کسی ایک پتھر کا بھی یہودیت سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہودیوں نے اس دیوار کے پاس اُنیسویں صدی میں دعا مانگنا شروع کی جب ان کے دلوں میں کئی آرزوئیں پروان چڑھنا شرو ع ہوگئی تھیں ۔‘‘ جناب یاسر عرفات نے اپنی تقریر میں کہا : ’’اس دیوار کا نام مقدس دیوارِ براق ہے نہ کہ دیوارِ گریہ۔ ہم اس کو دیوارِ گریہ نہیں کہتے۔ ۱۹۲۹ء میں اس مسئلہ پر ہونے والے ہنگاموں کے بعد شاکمیشن(Shaw Commission) نے قرار دیا کہ یہ مسلمانوں کی ایک دیوار ہے۔‘‘ (اشراق: اگست ۲۰۰۳ء ، ص ۴۶) فاضل ’محقق‘ نے دیوارِ براق کے متعلق تو تبصرہ کیا ہے کہ ’’اس جگہ کی تعیین کا کوئی قرینہ نہیں ہے۔‘‘ مگر انہیں یہودیوں کے ’دیوارِ گریہ‘ کے دعویٰ میں ’ہرقرینہ‘ دکھائی دیا ہے، اسی لئے اس پر وہ شک کرنے کو دل و جان سے ’گناہ‘ سمجھتے ہیں ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہودیوں کی اوہام وخرافاتthology) (My میں دیوارِ گریہ کا ذکر تو ملتا ہے، مگر اس کی تعیین ان کے بیانات میں بھی نہیں ملتی۔ حتیٰ کہ فری میسن تحریک جس نے دیوارِ گریہ اور ہیکل ِسلیمانی کو ڈرامائی رنگ عطا کیاہے، اس میں بھی یہ بیان نہیں ملتا کہ مسجد ِاقصیٰ کی مغربی دیوار، دیوارِ گریہ ہے۔ جنونی یہودی رِبیوں اور صہیونی تحریک کے علمبرداروں نے اُنیسویں صدی میں پہلی مرتبہ جوش و خروش کے ساتھ ’دیوارِ گریہ‘ کو مسجد ِاقصیٰ کا حصہ کہنا شروع کیا۔ فاضل مصنف نے بھی کوئی ایک حوالہ پیش نہیں کیا جس کی رو سے یہ ثابت کیا جاسکے کہ یہودیوں نے ماضی بعید میں دیوارِ گریہ کا تعین کررکھا تھا۔ ہماری اس رائے کی تائید شاکمیشن کی رپورٹ سے بھی ہوتی ہے۔ یہ کمیشن لیگ آف نیشن اوریورپی ریاستوں کے زیرسرپرستی قائم ہوا تھا جو مسلمانوں کی بجائے یہودیوں کی پشت پناہی کررہی تھیں ۔ یاد رہے کہ اس کمیشن کے قیام سے بارہ برس قبل اعلانِ بالفور (۱۹۱۷ء) ہوچکاتھا جس کی رو سے یہودیوں کے الگ ریاست کے حق کوتسلیم کیا گیا تھا۔ اگر ’دیوارِ گریہ‘ کے متعلق یہودیوں کے دعویٰ میں کچھ بھی صداقت ہوتی تو یہ کمیشن اس ذرّہ کو پہاڑ بناکر پیش کرتا تاکہ اس کی بنیاد پر یہودیوں کی ریاست کے لئے راہ مزید ہموار کی جاسکے، مگر وہ یہودیوں سے تمام تر خیرخواہی کے باوجود ایسا نہ کرسکے۔نجانے اِشراقی محققین ان
Flag Counter