Maktaba Wahhabi

61 - 64
ننگے حقائق سے اپنی نگاہیں کیوں پھیر لیتے ہیں ۔ جو بات عقل ِعام میں فوراً آجائے، اس کے سمجھنے میں دورِ حاضر کے بزعم خویش افلاطون کوتاہی کا مظاہرہ جان بوجھ کر کرتے ہیں ۔ مصنف نے برطانوی کمیشن کے سامنے ۱۹۳۰ء میں دیئے گئے یہودیوں کے بیان کا یہ حصہ بھی نقل کیا ہے : ’’ہیکل میں داخل ہونے کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کون سا راستہ اختیار کیا، اس کا تعین بھی نہیں کیا جاسکا اور یہ صرف حالیہ زمانے کی بات ہے کہ مسلمانوں نے یہ مشہور کرنا شروع کردیا ہے کہ پیغمبر یہاں سے گزرے تھے۔‘‘ اس بیان میں جھول پایا جاتا ہے جس پر مصنف کی نگاہِ التفات نہیں پڑی۔ ’ہیکل میں داخل ہونے کے لئے‘ کے الفاظ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہودی سمجھتے ہیں کہ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ معراج پیش آیا تو وہاں پرکوئی ہیکل موجود تھا جس میں گذرنے کی انہیں ضرورت پیش آئی۔ ہیکل بنیادی طور پر عمارت تھی، نہ کہ پلاٹ۔ جب یہودی روایات یہ بتاتی ہیں کہ دوسرا ہیکل سلیمانی بھی ۷۰ء میں تباہی کا شکار ہوگیاتھا تو پھر واقعہ معراج کے وقت کون سا ہیکل موجود تھا جس میں وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے داخلہ کاذکر کرتے ہیں ؟ یہ دونوں باتیں باہم متضاد ہیں ، مصنف کو ان کے درمیان بھی تطابق تلاش کرنا چاہئے تھا۔ اگر وہ اسی بیان پر ذرا توجہ فرماتے تو انہیں یہودیوں کے دیگر بیانات کی افسانوی حیثیت کا شاید اندازہ ہوجاتا، مگر وہ تو تحقیق کے سفر پر نکلے ہی یہ مقصد لے کر تھے کہ یہودیوں کی باتوں کی تصدیق اور اُمت ِمسلمہ کے موقف کا ابطال کیا جائے تو پھر ان سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔ ان کو یہودیوں کے حق تولیت سے محرومی کا رونا رونے سے فرصت ملتی تو وہ اصل حقائق پر توجہ ڈال سکتے۔ عجیب بات ہے کہ انہوں نے ایک ایسی چیز کے حق تولیت کے ثبوت کے لئے استدلال کی عمارت کھڑی کرنی چاہی جس کابذاتِ خود وجود ایک افسانہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا !! مسجد اقصیٰ کی تولیت ، مسلمانوں کا قانونی حق ہے یا اخلاقی؟ ’فنا فی التحقیق‘ ہمارے ممدوح نے مسجد ِاقصیٰ پر یہودیوں کے حق تولیت کو ’فائق‘ ثابت کرنے کے لئے جو نادرۂ روزگار نکتہ آفرینی فرمائی ہے، وہ ایک اعلیٰ درجہ کی ’بو العجبی‘ سے کسی طور کم نہیں ہے۔ فرماتے ہیں : ’’تاریخی لحاظ سے مسجد ِاقصیٰ کے ساتھ مذہبی تعلق و وابستگی کے دعوے میں دونوں فریق بنیادی طور پر سچے ہیں ۔‘‘
Flag Counter