اتنے معرکۃ الآرا مسئلہ میں ، بنیادی طو رپر دونوں سچے کیسے ہوسکتے ہیں ، ہماری عقل میں تو نہیں آتا۔ فرض کیجئے اگر دونوں سچے ہیں ، تو پھر یہودیوں کے حق ِتولیت کو ’فائق‘کیسے مان لیا جائے۔ مسلمان جب برابر کی سطح پر’سچے‘ ہیں تو انہیں مسجد ِاقصیٰ کی تولیت سے محروم کرنے کے لئے مصنف کاہے کو زورِ قلم دکھا رہے ہیں ۔ بنیادی طور پر ایک بے جوڑ بات کرنے کے بعد یہودیوں کے حق تولیت کے حق میں مصنف یوں استدلال فرماتے ہیں : ’’فریقین کے تعلق و وابستگی کے دعوے کو درست مان لینے کے بعد اب سوال یہ ہے کہ اس پر تولیت کا حق کس فریق کو ملنا چاہئے اور فریقین میں سے کس کے حق کو کس بنیاد پر ترجیح دی جائے؟ جہاں تک قانونی پہلو کا تعلق ہے، اس میں شبہ نہیں کہ مسلمانوں کے دعویٰ تولیت کو ایک عملی و جہ ِترجیح حاصل ہے۔ انہوں نے یہ عبادت گاہ نہ یہودیوں سے چھینی تھی اور نہ ان کی پہلے سے موجود کسی عبادت گاہ کو ڈھاکر اس پر اپنی عبادت گاہ تعمیر کی تھی۔ نیز وہ بحالت ِ موجودہ اس کی تولیت کے ذمہ دار ہیں اور وہ یہ ذمہ داری گذشتہ تیرہ صدیوں سے، صلیبی دور کے استثنا کے ساتھ، تسلسل کے ساتھ انجام دیتے چلے آرہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پربھی اس کی تولیت کا حق دار مسلمانوں ہی کو تسلیم کیا گیا ہے۔‘‘ (اشراق: اکتوبر۲۰۰۳ء) ان حقائق کو تسلیم کرلینے کے بعد موصوف یوں موشگافی فرماتے ہیں : ’’تاہم قانونی پہلو کو اس معاملے کا واحد قابل لحاظ پہلو سمجھنے کے عام نقطہ نظر سے ہمیں اختلاف ہے۔ ہماری رائے یہ ہے کہ اس نوعیت کے مذہبی تنازعات میں قرآن و سنت کی رو سے اصل قابل لحاظ چیز، جس کی رعایت مسلمانوں کو لازماً کرنی چاہئے، وہ اخلاقی پہلو ہے۔ اس بحث کی تنقیح کیلئے ہمارے نزدیک اس بنیادی سوال پرغور وخوض مناسب ہوگا کہ مسجد ِاقصیٰ کی تولیت کا مسلمانوں کے ہاتھوں میں آنا آیا شرعی نوعیت کا کوئی معاملہ ہے یا تکوینی و واقعاتی نوعیت کا؟ دوسرے لفظوں میں ، آیا یہ اسلامی شریعت کا کوئی حکم اور تقاضا ہے کہ مسلمان یہود کو اس عبادت گاہ سے لاتعلق قرار دیکر ان کی جگہ اس کی تولیت کی ذمہ داری خود سنبھال لیں یا محض تاریخی حالات و واقعات نے ایسی صورتحال پیدا کردی تھی کہ مسلمانوں کو اس کی تولیت کی ذمہ داری اُٹھانی پڑی۔‘‘ بظاہر تویہ استدلال بڑا ہی لطیف ہے مگر اس پر ذرا غور کیا جائے تو یہ وکیلانہ موشگافی سے زیادہ نہیں ہے۔ مصنف یہ اِدراک کرنے سے قاصر رہے ہیں کہ اگر مسلمانوں کو قانونی لحاظ سے حق ِتولیت کے بارے میں قابل ترجیح سمجھا گیا ہے تو اس کی بنیادی و جہ اس معاملے میں انکی اخلاقی برتری ہے۔ یہاں قانونی برتری کی اصل، بنیاد ا خلاقی برتری ہی ہے۔ مسجد ِاقصیٰ کے معاملے میں |